Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَالَّذِيۡنَ اجۡتَنَـبُـوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ يَّعۡبُدُوۡهَا وَاَنَابُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الۡبُشۡرٰى‌ ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ ۙ‏ ﴿17﴾
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور ( ہمہ تن ) اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں ، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے ۔
و الذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها و انابوا الى الله لهم البشرى فبشر عباد
But those who have avoided Taghut, lest they worship it, and turned back to Allah - for them are good tidings. So give good tidings to My servants
Aur jin logon ney taghoot ki ibadat say perhez kiya aur ( hama-tan ) Allah Taalaa ki taraf mutawajja rahey woh khushkhabri kay mustahiq hain meray bando ko khushkhabri suna dijiyey.
اور جن لوگوں نے اس بات سے پرہیز کیا ہے کہ وہ طاغوت کی عبادت کرنے لگیں ( ٩ ) اور انہوں نے اللہ سے لوگ لگائی ہے خوشی کی خبر انہی کے لیے ، لہذا میرے ان بندوں کو خوشی کی خبر سنا دو ۔
اور وہ جو بتوں کی پوجا سے بچے اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے انہیں کے لیے خوشخبری ہے تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو ،
بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت 35 کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے ۔ پس ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) بشارت دے دو
اور جو لوگ بتوں کی پرستش کرنے سے بچے رہے اور اللہ کی طرف جھکے رہے ، ان کے لئے خوشخبری ہے ، پس آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :35 طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں ۔ کسی کو طاغی ( سرکش ) کہنے کے بجائے اگر طاغوت ( سرکشی ) کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے ۔ مثال کے طور پر کسی کو حسین کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے ۔ معبودان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، صفحات 196 ۔ 197 ۔ 366 ۔ 367 ۔ 373 ۔ جلد دوم صفحہ 540 ) ۔ طاغوت کا لفظ یہاں طواغیت ، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اسی لیے اَنْ یَّعْبُدُوْھَا فرمایا گیا ۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ ہوتا ۔
مروی ہے کہ یہ آیت زید بن عمر بن نفیل ، ابو ذر اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ آیت جس طرح ان بزرگوں پر مشتمل ہے اسی طرح ہر اس شخص کو شامل کرتی ہے جس میں یہ پاک اوصاف ہوں یعنی بتوں سے بیزاری اور اللہ کی فرمانبرداری ۔ یہ ہیں جن کے لئے دونوں جہان میں خوشیاں ہیں ۔ بات سمجھ کر سن کر جب وہ اچھی ہو تو اس پر عمل کرنے والے مستحق مبارک باد ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تورات کے عطا فرمانے کے وقت فرمایا تھا اسے مضبوطی سے تھامو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ اس کی اچھائی کو مضبوط تھام لیں ۔ عقلمند اور نیک راہ لوگوں میں بھلی باتوں کے قبول کرنے کا صحیح مادہ ضرور ہوتا ہے ۔