Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَفَمَنۡ حَقَّ عَلَيۡهِ كَلِمَةُ الۡعَذَابِ ؕ اَفَاَنۡتَ تُنۡقِذُ مَنۡ فِى النَّارِ‌ ۚ‏ ﴿19﴾
بھلا جس شخص پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ہے تو کیا آپ اسے جو دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں ۔
افمن حق عليه كلمة العذاب افانت تنقذ من في النار
Then, is one who has deserved the decree of punishment [to be guided]? Then, can you save one who is in the Fire?
Bhala jiss shaks per azab ki baat saabit ho chuki hai to kiya aap ussay jo dozakh mein hai chura saktay hain.
بھلا جس شخص پر عذاب کی بات طے ہوچکی ، تو کیا تم اسے بچا لو گے جو آگ کے اندر پہنچ چکا ہے ؟
تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی نجات والوں کے برابر ہوجائے گا تو کیا تم ہدایت دے کر آگ کے مستحق کو بچالو گے ( ف٤۸ )
۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) اس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو؟ 37 کیا تم اسے بچا سکتے ہو جو آگ میں گر چکا ہو؟
بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم ثابت ہو چکا ، تو کیا آپ اس شخص کو بچا سکتے ہیں جو ( دائمی ) دوزخی ہو چکا ہو
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :37 یعنی جس نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے ۔
نیک اعمال کے حامل لوگوں کے لئے محلات ۔ فرماتا ہے کہ جس کی بدبختی لکھی جا چکی ہے تو اسے کوئی بھی راہ راست نہیں دکھا سکتا کون ہے جو اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ راست دکھا سکے؟ تجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ان کی رہبری کر کے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔ ہاں نیک بخت نیک اعمال نیک عقدہ لوگ قیامت کے دن جنت کے محلات میں مزے کریں گے ، ان بالا خانوں میں جو کئی کئی منزلوں کے ہیں ، تمام سامان آرائش سے آراستہ ہیں وسیع اور بلند خوبصورت اور جگمگ کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے محل ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے صاف دکھائی دیتا ہے ۔ ایک اعرابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لئے ہیں؟ فرمایا ان کے لئے جو نرم کلامی کریں کھانا کھلائیں اور راتوں کو جب لوگ میٹھی نیند میں ہوں یہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر گڑ گڑائیں ۔ نمازیں پڑھیں ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنایا ہے جو کھانا کھلائیں کلام کو نرم رکھیں پے درپے نفل روزے بکثرت رکھیں اور پچھلی راتوں کو تہد پڑھیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے جنتی جنت کے بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو اور روایت میں ہے مشرقی مغربی کناروں کے ستارے جس طرح تمہیں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح جنت کے وہ محلات تمہیں نظر آئیں گے اور حدیث میں ہے کہ ان محلات کی یہ تعریفیں سن کر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نبیوں کے لئے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ہم آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے چہرے کو دیکھتے رہتے ہیں اس وقت تک تو ہمارے دل نرم رہتے ہیں اور ہم آخرت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر دنیوی کاروبار میں پھنس جاتے ہیں بال بچوں میں مشغول ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہماری وہ حالت نہیں رہتی ۔ تو آپ نے فرمایا اگر تم ہر وقت اسی حالت پر رہتے جو حالت تمہاری میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے ہاتھوں سے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہارے گھروں میں آ کر تم سے ملاقاتیں کرتے ۔ سنو اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بخشے ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بنا کس چیز کی ہے؟ فرمایا ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی ۔ اس کا چونا خالص مشک ہے اس کی کنکریاں لولو اور یاقوت ہیں ۔ اس کی مٹی زعفران ہے ۔ اس میں جو داخل ہو گیا وہ مالا مال ہو گیا ۔ جس کے بعد بےمال ہونے کا خطرہ ہی نہیں ۔ وہ ہمیشہ اس میں ہی رہے گا وہاں سے نکالے جانے کا امکان ہی نہیں ۔ نہ موت کا کھٹکا ہے ، ان کے کپڑے گلتے سڑتے نہیں ، ان کی جوانی دوامی ہے ۔ سنو تین شخصوں کی دعا مردود نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روزے دار اور مظلوم ۔ ان کی دعا ابر پر اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ رب العزت فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو ۔ ( ترمذی ابن ماجہ وغیرہ ) ان محلات کے درمیان چشمے بہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جہاں چاہیں پانی پہنچائیں جب اور جتنا چاہیں بہاؤ رہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنے مومن بندوں سے یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات وعدہ خلافی سے پاک ہے ۔