Surah

Information

Surah # 39 | Verses: 75 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 59 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَمَا قَدَرُوْا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖ ‌ۖ  وَالۡاَرۡضُ جَمِيۡعًا قَبۡضَتُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطۡوِيّٰتٌۢ بِيَمِيۡنِهٖ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿67﴾
اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے ، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں ۔
و ما قدروا الله حق قدره و الارض جميعا قبضته يوم القيمة و السموت مطويت بيمينه سبحنه و تعلى عما يشركون
They have not appraised Allah with true appraisal, while the earth entirely will be [within] His grip on the Day of Resurrection, and the heavens will be folded in His right hand. Exalted is He and high above what they associate with Him.
Aur inn logon ney jaisi qadar Allah Taalaa ki kerni chahyey thi nahi ki sari zami qayamat kay din uss ki muthi mein hogi aur tamam aasman uss kay dahaney hath mein lapetay huyey hongay woh pak aur bartar hai her uss cheez say jissay log uss ka shareek banayen.
اور ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیسا کہ اس کی قدر پہچاننے کا حق تھا ، حالانکہ پوری کی پوری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی ، اور سارے کے سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک ہے اور بہت بالا و برتر اس شرک سے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں ۔
اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کا حق تھا ( ف۱۳۹ ) اور وہ قیامت کے دن سب زمینوں کو سمیٹ دے گا اور اس کی قدرت سے سب آسمان لپیٹ دیے جائیں گے ( ف۱٤۰ ) اور ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے ،
ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے 75 ۔ ( اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے 76 ۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ 77
اور انہوں نے اللہ کی قدر و تعظیم نہیں کی جیسے اُس کی قدر و تعظیم کا حق تھا اور ساری کی ساری زمین قیامت کے دن اُس کی مُٹھی میں ہوگی اور سارے آسمانی کرّے اُس کے دائیں ہاتھ ( یعنی قبضۂ قدرت ) میں لپٹے ہوئے ہوں گے ، وہ پاک ہے اور ہر اس چیز سے بلند و برتر ہے جسے یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :75 یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :76 زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سی گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے ، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا ، اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رومال کی طرح ہیں ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں ( یعنی سیاروں ) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے ، اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد ، میں ہوں بادشاہ ، میں ہوں جبار ، میں ہوں کبریائی کا مالک ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبار؟ کہاں ہیں متکبر ، ؟ یہ کہتے کہتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :77 یعنی کہاں اس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا ۔
زمین و آسمان اللہ کی انگلیوں میں ۔ مشرکین نے دراصل اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت جانی ہی نہیں اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے ، اس سے بڑھ کر عزت والا اس سے زیادہ بادشاہت والا اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا ہمسر اور کرنے والا ہے ۔ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ انہیں اگر قدر ہوتی تو اس کی باتوں کو غلط نہ جانتے ۔ جو شخص اللہ کو ہر چیز پر قادر مانے ، وہ ہے جس نے اللہ کی عظمت کی اور جس کا یہ عقیدہ نہ ہو وہ اللہ کی قدر کرنے والا نہیں ۔ اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اس جیسی آیتوں کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہی رہا ہے کہ جس طرح اور جن لفظوں میں یہ آئی ہے اسی طرح انہی لفظوں کے ساتھ انہیں مان لینا اور ان پر ایمان رکھنا ۔ نہ ان کی کیفیت ٹٹولنا نہ ان میں تحریف و تبدیلی کرنا ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم یہ لکھا پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور درختوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر فرمائے گا میں ہی سب کا مالک اور سچا بادشاہ ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی سچائی پر ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ کے مسوڑھے ظاہر ہوگئے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ مسند کی حدیث بھی اسی کے قریب ہے اس میں ہے کہ آپ ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور روایت میں ہے کہ وہ اپنی انگلیوں پر بتاتا جاتا تھا پہلے اس نے کلمے کی انگلی دکھائی تھی ۔ اس روایت میں چار انگلیوں کا ذکر ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے اللہ تعالیٰ زمین کو قبض کرلے گا اور آسمان کو اپنی داہنی مٹھی میں لے لے گا ۔ پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ مسلم کی اس حدیث میں ہے کہ زمینیں اس کی ایک انگلی پر ہوں گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے پھر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور آپ اپنا ہاتھ ہلاتے جاتے آگے پیچھے لا رہے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی آپ بیان فرمائے گا کہ میں جبار ہوں میں متکبر ہوں میں مالک ہوں میں باعزت ہوں میں کریم ہوں ۔ آپ اس کے بیان کے وقت اتنا ہل رہے تھے کہ ہمیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی پوری کیفیت دکھا دی کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکایت کیا تھا ؟ کہ اللہ تبارک و آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں ۔ اپنی انگلیوں کو کبھی کھولے گا کبھی بند کرے گا اور آپ اس وقت ہل رہے تھے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلنے سے سارا منبر ہلنے لگا اور مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا نہ دے ۔ بزار کی رویت میں ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی اور منبر ہلنے لگا پس آپ تین مرتبہ آئے گئے واللہ اعلم ۔ معجم کبیر طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا میں آج تمہیں سورۃ زمر کی آخری آیتیں سناؤں گا جسے ان سے رونا آگیا وہ جنتی ہوگیا اب آپ نے اس آیت سے لے کر ختم سورۃ تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں بعض روئے اور بعض کو رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہر چند رونا چاہا لیکن رونا نہ آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا میں پھر پڑھوں گا جسے رونا نہ آئے وہ رونی شکل بناکر بہ تکلف روئے ۔ ایک اس سے بڑھ کر غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تین چیزیں اپنے بندوں میں چھپالی ہیں اگر وہ انہیں دیکھ لیتے تو کوئی شخص کبھی کوئی بدعملی نہ کرتا ۔ ( ١ ) اگر میں پردہ ہٹا دیتا اور وہ مجھے دیکھ کر خوب یقین کرلیتے اور معلوم کرلیتے کہ میں اپنی مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہوں جبکہ ان کے پاس آؤں اور آسمانوں کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر اپنی زمین کو اپنی مٹھی میں لے لوں پھر کہوں میں بادشاہ ہوں میرے سوا ملک کا مالک کون ہے؟ ( ٢ ) پھر میں انہیں جنت دکھاؤں اور اس میں جو بھلائیاں ہیں سب ان کے سامنے کردوں اور وہ یقین کے ساتھ خوب اچھی طرح دیکھ لیں ۔ ( ٣ ) اور میں انہیں جہنم دکھا دوں اور اس کے عذاب دکھا دوں یہاں تک کہ انہیں یقین آ جائے ۔ لیکن میں نے یہ چیزیں قصداً ان سے پوشیدہ کر رکھی ہیں ۔ تاکہ میں جان لوں کہ وہ مجھے کس طرح جانتے ہیں کیونکہ میں نے یہ سب باتیں بیان کردی ہیں ۔ اس کی سند متقارب ہے اور اس نسخے سے بہت سی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔