Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو بس پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْمُؤْمِن نام : آیت 28 کے فقرے وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ سے ماخوذ ہے ، یعنی وہ سورہ جس میں اس خاص مومن کا ذکر آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : ابن عباس اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ یہ سورۃ زمر کے بعد متصلاً نازل ہوئی ہے اور اس کا جو مقام قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ہے وہی ترتیب نزول کے اعتبار سے بھی ہے ۔ حالات نزول : جن حالات میں یہ سورہ نازل ہوئی ہے ان کی طرف صاف اشارات اس کے مضمون میں موجود ہیں ۔ کفار مکہ نے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دو طرح کی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں ۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر ، طرح طرح کے الٹے سیدھے سوالات اٹھا کر ، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان زچ ہو جائیں ۔ دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کر دینے کے لیے زمین ہموار کی جائے ۔ چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں کر رہے تھے ، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ یکایک عُقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اور اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا ۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابو بکر صدیق اس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ ( کیا تم ایک شخص کو صرف اس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ ) ۔ تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام میں بھی منقول ہوا ہے اور نَسَائی اور ابن ابی حاتم نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ موضوع اور مباحث : صورت حال کے ان دونوں پہلوؤں کو آغاز تقریر ہی میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے اور پھر آگے کی پوری تقریر انہی دونوں پر ایک انتہائی مؤثر اور سبق آموز تبصرہ ہے ۔ قتل کی سازشوں کے جواب میں مومن آل فرعون کا قصہ سنایا گیا ہے ( آیت 23 تا 55 ) اور اس قصے کے پیرائے میں تین گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں : 1 ۔ کفار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا ، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا ؟ 2 ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروؤں کو سبق دیا گیا ہے کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی بالا دست اور چہرہ دست ہوں ، اور ان کے مقابلہ میں تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بے بس ہو ، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس خدا کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم کام کر رہے ہو اس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے ۔ لہٰذا جو بڑی سے بڑی خوفناک دھمکی بھی یہ تمہیں دے سکتے ہیں ، اس کے جواب میں بس خدا کی پناہ مانگ لو اور اس کے بعد بالکل بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگ جاؤ ۔ خدا پرست کے پاس ظالم کی ہر دھمکی کا بس ایک جواب ہے ، اور وہ ہے اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ۔ اس طرح خدا کے بھروسے پر خطرات سے بے پروا ہو کر کام کرو گے تو آخر کار اس کی نصرت آ کر رہے گی اور آج کے فرعون بھی وہی کچھ دیکھ لیں گے جو کل کے فرعون دیکھ چکے ہیں ۔ وہ وقت آنے تک ظلم و ستم کے جو طوفان بھی امڈ کر آئیں انہیں صبر کے ساتھ تمہیں برداشت کرنا ہو گا ۔ 3 ۔ ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا ، اور وہ ان لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور کفار قریش سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو ۔ اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اسے تو اٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا ۔ جو مصلحتیں تمہیں زبان کھولنے سے باز رکھ رہی ہیں ، یہی مصلحتیں اس شخص کے آگے بھی راستہ روک کر کھڑی ہوئی تھیں ۔ مگر اس نے اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہ کہہ کر ان ساری مصلحتوں کو ٹھکرا دیا ، اور اس کے بعد دیکھ لو کہ فرعون اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ اب رہا کفار کا وہ مجادلہ جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے مکہ معظمہ میں شب و روز جاری تھا ، تو اس کے جواب میں ایک طرف دلائل سے توحید اور آخرت کے ان عقائد کا برحق ہونا ثابت کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان اصل بنائے نزاع تھے ، اور یہ حقیقت صاف کھول کر رکھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ کسی علم اور کسی دلیل و حجت کے بغیر سچائیوں کے خلاف خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں ۔ دوسری طرف ان اصل محرکات کو بے نقاب کیا گیا ہے جن کی بنا پر سرداران قریش اس قدر سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسر پیکار تھے ۔ بظاہر انہوں نے یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت پر انہیں حقیقی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان باتوں کو نہیں مان رہے ہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ ان کے لیے محض ایک جنگ اقتدار تھی ۔ آیت 56 میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ان سے صاف کہہ دی گئی ہے کہ تمہارے انکار کی اصل وجہ وہ کبر ہے جو تمہارے دلوں میں بھرا ہوا ہے ۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تسلیم کرلیں گے تو تمہاری بڑائی قائم نہ رہ سکے گی ۔ اسی وجہ سے تم ان کو زک دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو ۔ اسی سلسلے میں کفار کو پے در پے تنبیہات کی گئی ہیں کہ اگر اللہ کی آیات کے مقابلے میں مجادلہ کرنے سے باز نہ آؤ گے تو اسی انجام سے دوچار ہو گے جس سے پچھلی قومیں دوچار ہو چکی ہیں اور اس سے بدتر انجام تمہارے لیے آخرت میں مقدر ہے ۔ اس وقت تم پچھتاؤ گے ، مگر اس وقت کا پچھتانا تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا ۔
بعض سلف کا قول ہے کہ جن سورتوں کی ابتداء حم سے ہے انہیں حوا میم کہنا مکروہ ہے ۔ ال حم کہا جائے ۔ حضرت محمد بن سیرین بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ال حم قرآن کا دیباچہ ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر چیز کا دروازہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا دروازہ آل حم ہے یا فرمایا حوا میم ہیں ۔ حضرت مسعر بن کدام فرماتے ہیں ان سورتوں کو عرائس کہا جاتا تھا ۔ عروس دلہن کو کہتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے کسی اچھی منزل کی تلاش میں نکلا تو ایک جگہ ایسی ہے جہاں گویا ابھی ابھی بارش برس چکی ہے یہ ذرا ہی کچھ آگے بڑھا ہوگا کہ دیکھتا ہے کہ تروتازہ لہلہاتے ہوئے چند چمن ہیں ۔ یہ پہلے تر زمین کو دیکھ کر ہی تعجب میں تھا اب تو اس کا تعجب اور بڑھ گیا ۔ اس سے کہا گیا کہ پہلے کی مثال تو قرآن کریم کی عظمت کی مثال ہے اور ان باغیچوں کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن میں حم والی سورتیں ( بغوی ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر چیز کا دروازہ ہوتا ہے اور قرآن کا دروازہ یہی حم والی سورتیں ہیں ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں جب میں تلاوت کرتا ہوا حم والی سورتوں پر پہنچتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا میں ہرے بھرے پھلے پھولے باغوں کی سیر کر رہا ہوں ایک شخص نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد بناتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ میں اسے حم والی سورتوں کیلئے بنا رہا ہوں ممکن ہے یہ مسجد وہ ہو جو دمشق کے قلعہ کے اندر ہے اور آپ ہی کے نام سے منسوب ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی حفاظت حضرت ابو الدرداء کی نیک نیتی کی اور جس وجہ سے یہ مسجد بنائی گئی تھی اس کی برکت کے باعث ہو ۔ اس کلام میں دشمنوں پر فتح و ظفر کی دلیل بھی ہے ۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام نے اپنے بعض جہادوں میں اپنے لشکروں سے فرما دیا تھا کہ اگر رات کو تم اچانک حملہ کرو تو تمہاری پہچان کے خاص الفاظ حم لا ینصرون ہیں ایک روایت میں تنصرون ہے ۔ مسند بزار میں ہے جس نے آیت الکرسی اور سورۃ حم المومن کا ابتدائی حصہ پڑھا وہ سارے دن کی برائی سے محفوظ رہتا ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور اس کے ایک راوی پر کچھ جرح بھی ہے ۔