Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
مَا يُجَادِلُ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فَلَا يَغۡرُرۡكَ تَقَلُّبُهُمۡ فِى الۡبِلَادِ‏ ﴿4﴾
اللہ تعالٰی کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔
ما يجادل في ايت الله الا الذين كفروا فلا يغررك تقلبهم في البلاد
No one disputes concerning the signs of Allah except those who disbelieve, so be not deceived by their [uninhibited] movement throughout the land.
Allah Taalaa ki aayaton mein wohi log jhagartay hain jo kafir hain pus inn logon ka shehron mein chalna phirna aap ko dhokay mein na daal day.
اللہ کی آیتوں میں جھگڑے وہی لوگ پیدا کرتے ہیں جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے لہذا ان لوگوں کا شہروں میں دندناتے پھرنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے ( 1 )
اللہ کی آیتوں میں جھگڑا نہیں کرتے مگر کافر ( ف٦ ) تو اے سننے والے تجھے دھوکا نہ دے ان کا شہروں میں اہل گہلے ( اِتراتے ) پھرنا ( ف۷ )
اللہ کی آیات میں جھگڑے 2 نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے 3 ۔ اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے 4 ۔
اللہ کی آیتوں میں کوئی جھگڑا نہیں کرتا سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے کفر کیا ، سو اُن کا شہروں میں ( آزادی سے ) گھومنا پھرنا تمہیں مغالطہ میں نہ ڈال دے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :2 جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا ۔ مین میخ نکالنا ۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا ۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے ۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے ۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا ۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے ۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :3 کفر کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک کفران نعمت ۔ دوسرے انکار حق ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو ۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آرہی ہو ، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتی جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :4 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے ۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے ۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں ، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں ، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں ، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں ، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں ، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی برا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا ۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے ۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے ۔
انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حق کے ظاہر ہوچکنے کے بعد اسے نہ ماننا اور اس میں نقصانات پیدا کرنے کی کوشش کرنا کافروں کا ہی کام ہے ۔ یہ لوگ اگر مال دار اور ذی عزت ہوں تو تم کسی دھوکے میں نہ پڑ جانا کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک برے ہوتے تو اللہ انہیں اپنی یہ نعمتیں کیوں عطا فرماتا ؟ جیسے اور جگہ ہے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو کچھ یونہی سا فائدہ ہے آخری انجام تو ان کا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہے ہم انہیں بہت کم فائدہ دے رہے ہیں بالآخر انہیں سخت عذاب کی طرف بےبس کردیں گے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے گھبرائیں نہیں ۔ اپنے سے اگلے انبیاء کے حالات کو دیکھیں کہ انہیں بھی جھٹلایا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کی بھی بہت کم تعداد تھی ، حضرت نوح علیہ السلام جو بنی آدم میں سب سے پہلے رسول ہو کر آئے انہیں ان کی امت جھٹلاتی رہی بلکہ سب نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کو قید کرنا اور مار ڈالنا چاہا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ان باطل والوں کو پکڑلیا ۔ اور ان کے ان زبردست گناہوں اور بدترین سرکشیوں کی بنا پر انہیں ہلاک کردیا ۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ میرے عذاب ان پر کیسے کچھ ہوئے؟ یعنی بہت سخت نہایت تکلیف دہ اور المناک ، جس طرح ان پر ان کے اس ناپاک عمل کی وجہ سے میرے عذاب اتر پڑے اسی طرح اب اس امت میں سے جو اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ان پر بھی میرے ایسے ہی عذاب نازل ہونے والے ہیں ۔ یہ گو نبیوں کو سچا مانیں لیکن جب تیری نبوت کے ہی قائل نہ ہوں ان کی سچائی مردود ہے ۔ واللہ اعلم ۔