Woh kahengay aey humaray perwerdigar! Tu ney humen doobara maara aur doobara hi jilaya abb hum apnay gunahon kay iqrari hain to kiya abb koi raah nikalney ki bhi hai?
وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت ( 4 ) اور دو مرتبہ زندگی دی ، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، تو کیا ( ہمارے دوزخ سے ) نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
وہ کہیں گے اے ہمارے رب ، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی ، 15 اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں 16 ، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟17
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار موت دی اور تو نے ہمیں دو بار ( ہی ) زندگی بخشی ، سو ( اب ) ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، پس کیا ( عذاب سے بچ ) نکلنے کی طرف کوئی راستہ ہے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :15
دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی سے مراد و ہی چیز ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ ، آیت 28 میں کیا گیا ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے ، اس نے تمہیں زندگی بخشی ، پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دے گا ۔ کفار ان میں سے پہلی تین حالتوں کا تو انکار نہیں کرتے ، کیونکہ وہ مشاہدے میں آتی ہیں اور اس بنا پر ناقابل انکار ہیں ، مگر آخری حالت پیش آنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مشاہدے میں ابھی تک نہیں آئی ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام ہی نے اس کی خبر دی ہے ۔ قیامت کے روز جب عملاً وہ چوتھی حالت بھی مشاہدے میں آ جائے گی تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آگیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :16
یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی کا انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اس غلط نظریے پر کام کر کے ہماری زندگی گناہوں سے لبریز ہو گئی ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :17
یعنی کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعتراف گناہ کو قبول کر کے ہمیں عذاب کی اس حالت سے نکال دیا جائے جس میں ہم مبتلا ہو گئے ہیں ۔