Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَلَنۡ يَّكۡفِيَكُمۡ اَنۡ يُّمِدَّكُمۡ رَبُّكُمۡ بِثَلٰثَةِ اٰلَافٍ مِّنَ الۡمَلٰٓٮِٕكَةِ مُنۡزَلِيۡنَؕ‏ ﴿124﴾
۔ اور یہ شکر گُزاری باعثِ نُصرت و امداد ہو ) جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے ، کیا آسمان سے تین ہزار فرشتے اُتار کر اللہ تعالٰی کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا ۔
اذ تقول للمؤمنين الن يكفيكم ان يمدكم ربكم بثلثة الف من الملىكة منزلين
[Remember] when you said to the believers, "Is it not sufficient for you that your Lord should reinforce you with three thousand angels sent down?
( aur yeh shukar guzari baees-e-nusrat-o-imdad ho ) jab aap momino ko tasalli dey rahey thay kiya aasman say teen hazar farishtay utaar ker Allah Taalaa ka tumhari madad kerna tumhen kafi na hoga.
جب ( بدر کی جنگ میں ) تم مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کو بھیج دے ؟
جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ،
یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے ’’کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ‘‘؟ ۔ ۔ ۔ ۔ 96
جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :96 مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف دشمن تین ہزار ہیں اور ہمارے ایک ہزار میں سے بھی تین سو الگ ہوگئے ہیں تو ان کے دل ٹوٹنے لگے ۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ الفاظ کہے تھے ۔
غزوہ بدر اور تائید الٰہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تسلیاں دینا بعض تو کہتے ہیں بدر والے دن تھا حسن بصری عامر شعبی ربیع بن انس وغیرہ کا یہی قول ہے ابن جریر کا بھی اسی سے اتفاق ہے عامر شعبی کا قول ہے کہ مسلمانوں کو یہ خبر ملی تھی کہ کرز بن جابر مشرکوں کی امداد میں آئے گا اس پر اس امداد کا وعدہ ہوا تھا لیکن نہ وہ نہیں آیا اور نہ ہی یہ گئے ربیع بن انس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کیلئے پہلے تو ایک ہزار فرشتے بھیجے پھر تین ہزار ہو گئے پھر پانچ ہزار ، یہاں اس آیت میں تین ہزار اور پانچ ہزار سے مدد کرنے کا وعدہ ہے اور بدر کے واقعہ کے بیان کے وقت ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا وعدہ ہے ۔ فرمایا آیت ( اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ) 8 ۔ الانفال:9 ) اور تطبیق دونوں آیتوں میں یہی ہے کیونکہ مردفین کا لفظ موجود ہے پس پہلے ایک ہزار اترے پھر ان کے بعد تین ہزار پورے ہوئے آخر پانچ ہزار ہو گئے ، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ جنگ بدر کے لئے تھانہ کہ جنگ احد کیلئے ، بعض کہتے ہیں جنگ احد کے موقعہ پر وعدہ ہوا تھا مجاہد عکرمہ ضحاک زہری موسیٰ بن عقبہ وغیرہ کا یہی قول ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اس لئے یہ فرشتے نازل نہ ہوئے ، کیونکہ آیت ( وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا ) 3 ۔ آل عمران:120 ) ساتھ ہی فرمایا تھا یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو فور کے معنی وجہ اور غضب کے ہیں مسومین کے معنی علامت والے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں کی نشانی بدر والے دن سفید رنگ کے لباس کی تھی اور ان کے گھوڑوں کی نشانی ماتھے کی سفیدی تھی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی نشانی سرخ تھی ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں گردن کے بالوں اور دم کا نشان تھا اور یہی نشان آپ کے لشکریوں کا تھا یعنی صوف کا ۔ مکحول کہتے ہیں فرشتوں کی نشانی ان کی پگڑیاں تھیں جو سیاہ رنگ کے عمامے تھے اور حنین والے دن سرخ رنگ عمامے تھے ، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے علاوہ فرشتے کبھی جنگ میں شامل نہیں ہوئے اور سفید رنگ عماموں کی علامت تھی یہ صرف مدد کیلئے اور تعداد بڑھانے کیلئے تھے نہ کہ لڑائی کیلئے ، یہ بھی مروی ہے کہ یہ فرشتوں کا نازل کرنا اور تمہیں اس کی خبر دینا صرف تمہاری خوشی ، دلجوئی اور اطمینان کیلئے ہے ورنہ اللہ کو قدرت ہے کہ ان کو اتارے بغیر بلکہ بغیر تمہارے لڑے بھی تمہیں غالب کر دے مدد اسی کی طرف سے ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47 ۔ محمد:4 ) اگر اللہ چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ ہر ایک کو آزما رہا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو قتل کئے جائیں ان کے اعمال اکارت نہیں ہوتے اللہ انہیں راہ دکھائے گا ان کے اعمال سنوار دے گا اور انہیں جنت میں لے جائے گا جس کی تعریف وہ کر چکا ہے ، وہ عزت والا ہے اور اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے ۔ یہ جہاد کا حکم بھی طرح طرح کی حکمتوں پر مبنی ہے اس سے کفار ہلاک ہوں گے یا ذلیل ہوں گے یا نامراد واپس ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد بیان ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی امر کا اختیار نہیں جیسے فرمایا آیت ( فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ) 13 ۔ الرعد:40 ) تمہارا ذمہ صرف تبلیغ ہے حساب تو تمہارے ذمہ ہے اور جگہ ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) الخ ، ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) 28 ۔ القصص:56 ) تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ، پس میرے بندوں میں تجھے کوئی اختیار نہیں جو حکم پہنچے اسے اوروں کو پہنچا دے تیرے ذمہ یہی ہے ممکن ہے اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور برائی کے بعد وہ بھلائی کرنے لگیں اور اللہ رحیم ان کی توبہ قبول فرما لے یا ممکن ہے کہ انہیں ان کے کفرو گناہ کی بناء پر عذاب کرے تو یہ ظالم اس کے بھی مستحق ہیں ، صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں جب دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے اور دعا ( سمع اللہ لمن حمدہ ربناولک الحمد ) کہہ لیتے تو فار پر بددعا کرتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت کر اس کے بارے میں یہ آیت اتری ( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:128 ) نازل ہوئی مسند احمد میں ان کافروں کے نام بھی آئے ہیں مثلاً حارث بن ہشام سہیل بن عمرو صفوان بن امیہ اور اسی میں ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ مسلمان ہو گئے ، ایک روایت میں ہے کہ چار آدمیوں پر یہ بد دعا تھی جس سے روک دیئے گئے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا کرنا یا کسی کے حق میں نیک دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد سمع اللہ اور ربنا پڑھ کر دعا مانگتے کبھی کہتے اے اللہ ولید بن ولید سلمہ بن ہشام عیاش بن ابو ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کفار سے نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ اور اپنا عذاب نازل فرما اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی حضرت یوسف کے زمانہ میں تھی یہ دعا با آواز بلند ہوا کرتی تھی اور بعض مرتبہ صبح کی نماز کے قنوت میں یوں بھی کہتے کہ اے اللہ فلاں فلاں پر لعنت بھیج اور عرب کے بعض قبیلوں کے نام لیتے تھے اور روایت میں ہے کہ جنگ احد میں جب آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے چہرہ زخمی ہوا خون بہنے لگا تو زبان سے نکل کیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ خالق کل کی طرف سے انہیں بلاتا تھا اس وقت یہ آیت ( لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:128 ) نازل ہوئی ، آپ اس غزوے میں ایک گڑھ میں گر پڑے تھے اور خون بہت نکل گیا تھا کچھ تو اس ضعف کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے اٹھ نہ سکے حضرت حذیفہ کے مولیٰ حضرت سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچے اور چہرے پر سے خون پونچھا جب افاقہ ہوا تو آپ نے یہ فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ہے سب اس کے غلام ہیں جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے متصرف وہی ہے جو چاہے حکم کرے کوئی اس پر پرشس نہیں کر سکتا وہ غفور اور رحیم ہے ۔