Surah

Information

Surah # 40 | Verses: 85 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 60 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 56, 57, from Madina
فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِبۡكَارِ‏ ﴿55﴾
پس اے نبی! تو صبر کر اللہ کا وعدہ بلا شک ( وشبہ ) سچا ہی ہے تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح شام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ ۔
فاصبر ان وعد الله حق و استغفر لذنبك و سبح بحمد ربك بالعشي و الابكار
So be patient, [O Muhammad]. Indeed, the promise of Allah is truth. And ask forgiveness for your sin and exalt [ Allah ] with praise of your Lord in the evening and the morning.
Pus aey nabi! To sabar ker Allah ka wada bila shak ( o-shuba ) sacha hi hai tu apnay gunah ki maafi mangta reh aur subah shaam apnay perwerdigar ki tasbeeh aur hamd biyan kerta reh.
لہذا ( اے پیغمبر ! ) صبر سے کام لو ، یقین رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور اپنے قصور پر استغفار کرتے رہو ۔ ( 15 ) اور صبح و شام اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہو ۔
تم صبر کرو ( ف۱۱٤ ) بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ( ف۱۱۵ ) اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو ( ف۱۱٦ ) اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے صبح اور شام اس کی پاکی بولو ( ف۱۱۷ )
پس اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، صبر کرو 71 ، اللہ کا وعدہ برحق ہے 72 ، اپنے قصور کی معافی چاہو 73 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو 74 ۔
پس آپ صبر کیجئے ، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور اپنی اُمت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے٭ اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کیجئے
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :71 یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :72 اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد سے اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :73 جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر قصور سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی ۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں ، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے ۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی ، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتضی تھا ، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی ، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :74 یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو ۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو ۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں ۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۵ ۔ ۵۹ ۔ ٦۰ ۔ ۲٦۳ ، جلد دوم ، ہود ، حاشیہ ۱۱۳ ، الحجر حاشیہ ۵۳ ، بنی اسراءیل ، دیباچہ ، حواشی ۹۱ تا ۹۸ ، جلد سوم طہ حاشیہ ۱۱۱ ، النور ، حواشی ۸٤ تا۸۹ ، العنکبوت ، حواشی ۷٦ تا۷۹ ، الروم ، حواشی ۲٤تا ۵۰ )