Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة نام : اس سورہ کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے ۔ ایک حٰم ، دوسرے السجدہ ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے ۔ زمانۂ نزول : معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے پہلے ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف رکھتے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے ۔ اس موقع پر عُتبہ بن ربیعہ ( ابو سفیان کے خسر ) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو ، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں ، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کرلیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں ۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا بیٹھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا بھتیجے ، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے ۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو ۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھہرایا ۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی ۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے ۔ اب ذرا میری بات سنو ۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں ۔ ان پر غور کرو ۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کرلو ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوالولید ، آپ کہیں ، میں سنوں گا ۔ اس نے کہا ، بھتیجے ، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے ، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں ۔ اور اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں ۔ عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش سنتے رہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟ اس نے کہا ، ہاں ۔ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ، اب میری سنو ۔ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ آیت سجدہ ( آیت 38 ) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ، پھر سر اٹھا کر فرمایا ، اے ابوالید ، میرا جواب آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا ، خدا کی قسم ، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے ، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا ۔ پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سن آئے؟ اس نے کہا : بخدا ، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا ۔ خدا کی قسم ، نہ یہ شعر ہے ، نہ سحر ہے نہ کہانت ۔ اے سرداران قریش ، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا ۔ فرض کرو ، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے ۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی ، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہو گی ۔ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے ، ولید کے ابا ، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا ۔ عتبہ نے کہا ، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتا دی ، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو ( ابن ہشام ، جلد 1 ، ص 313 ۔ 314 ) اس قصے کو متعدد دوسرے محدثین نے حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے ، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے ۔ ان میں سے بعض میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے ہوئے آیت : فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ( اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں ) پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو ۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ لوگ جانتے ہیں ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے ، اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہو جائے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ج 4 ، ص 90 ۔ 91 ۔ البدایہ والنہایہ ، ج3 ، ص 62 ) ۔ موضوع اور مضمون : عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھیں ۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا ۔ اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ، اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہرحال کوئی امکان نہیں ہے ، اب لامحالہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے ، یا پھر ، معاذاللہ ، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عقل پر فتور آگیا ہے ۔ پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا ، اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کرائے دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو ایک شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے ۔ عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سورہ میں اس مخالفت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی ۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے ، آپ خواہ کچھ کریں ، ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دیں گے ۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں ۔ اپنے کان بند کر لیے ہیں ۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی نہ ملنے دے گی ۔ انہوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے ، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے ۔ انہوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیروؤں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے ، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جائے اور اتنا شور مچایا جائے کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے ۔ وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو الٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں ۔ بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے ۔ سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالتے تھے ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اڑتے اور اس کے ساتھ ا پنی طرف سے چار باتیں ملا کر نئے نئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کی جائے ۔ عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے ۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے ۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کر لے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں ، جسے یہ نہیں جانتا ، یکایک اٹھ کر فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا ۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے ۔ اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے : ( 1 ) ۔ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے ۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں ، جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے ، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا ۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے ۔ خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اس سے فائدہ اٹھائیں ، اور ڈرنا چاہیے ان لوگوں کو جو اس سے منہ موڑ لیں ۔ ( 2 ) ۔ تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سنائے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے ۔ وہ تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے ۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے ۔ ( 3 ) ۔ تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو ، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو ۔ تمہاری ضد سے یہ حقیقت بہرحال نہیں بدل سکتی ۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دوچار ہو گے ۔ ( 4 ) ۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اَتھاہ کائنات بنائی ہے ، جو زمین و آسمان کا خالق ہے ، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو ، اور جس کے مہیا کیے ہوئے رزق پر تم پل رہے ہو ۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو ، اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو ۔ ( 5 ) ۔ اچھا ، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا ۔ اور یہ عذاب بھی تمہارے جرم کی آخری سزا نہ ہو گا ، بلکہ آگے میدان حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے ۔ ( 6 ) ۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں ، اسکی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی خود صحیح بات سوچنے دیں ، نہ کسی دوسرے سے سننے دیں ۔ اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے کو بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں ، اور ہر ایک دوسرے کی شہ پاکر نہلے پر دہلا مار رہا ہے ، مگر قیامت کے راز جب شامت آئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں ۔ ( 7 ) ۔ یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے ۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے ۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا در پردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو ، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا ۔ ( 8 ) ۔ آج تمہاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا ۔ لیکن اگر ہم تمہاری ہدایت کے لیے عجمی مذاق ہے ، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے ۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو ۔ ( 9 ) ۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے ۔ ( 10 ) ۔ آج تم نہیں مان رہے ہو ، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے ، اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو ۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا ، وہ حق تھا ۔ مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو در پیش تھے ۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو در کنار ، ایمان کے راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا ، اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مددگار محسوس کر رہے تھے ۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار و مددگار نہیں ہو ، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے ، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ پھر یہ فرما کر انکا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے ، دوسروں کو خدا کی طرف بلائے ، اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے سنگ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جائے اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں ، مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انہیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا ۔ صبر کے ساتھ اس سے کام لو ، اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکسائے تو خدا سے پناہ مانگو ۔