Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏ ﴿11﴾
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں ( سا ) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں ۔
ثم استوى الى السماء و هي دخان فقال لها و للارض اتيا طوعا او كرها قالتا اتينا طاىعين
Then He directed Himself to the heaven while it was smoke and said to it and to the earth, "Come [into being], willingly or by compulsion." They said, "We have come willingly."
Phir aasman ki taraf mutawajja hua aur woh dhuwan ( sa ) tha pus issay aur zamin say farmaya kay tum khushi say aao ya na khushi say. Donon ney araz kiya hum ba-khushi hazir hain.
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا ( 5 ) اور اس سے اور زمین سے کہا : چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی ۔ دونوں نے کہا : ہم خوشی خوشی آتے ہیں ( 6 )
پھر آسمان کی طرف قصد فرمایا اور وہ دھواں تھا ( ف۲۵ ) تو اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے ، دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے ،
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا 14 ۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آ جاؤ ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو ۔ دونوں نے کہا ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح 15 ۔
پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ ( سب ) دھواں تھا ، سو اس نے اُسے ( یعنی آسمانی کرّوں سے ) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریزی و ناگواری سے ( ہمارے نظام کے تابع ) آجاؤ ، دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :14 اس مقام پر تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے : اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے ، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہے ۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا ۔ دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزاء غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا ۔ موجودہ زمانہ کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے ( Nebula ) سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے ، اسی دخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا ۔ سوم یہ کہ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ پہلے اس نے زمین بنائی ، پھر اس میں پہاڑ جمانے ، برکتیں رکھنے اور سامان خوراک فراہم کرنے کا کام انجام دیا ، پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ کائنات کی تخلیق کی طرف متوجہ ہوا ۔ اس غلط فہمی کو بعد کا یہ فقرہ رفع کر دیتا ہے کہ اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاؤ اور انہوں نے کہا ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح ۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جارہی تھی ۔ محض لفظ ثُمَّ ( پھر ) کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہو چکی تھی ۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ثُمَّ کا لفظ لازماً ترتیب زمانی ہی کے لیے نہیں ہوتا ، بلکہ ترتیب بیان کے طور پر بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ زمر ، حاشیہ نمبر 12 ) قدیم زمانے کے مفسرین میں یہ بحث مدت ہائے دراز تک چلتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی رو سے زمین پہلے بنی ہے یا آسمان ۔ ایک گروہ اس آیت اور سورہ بقرہ کی آیت 29 سے یہ استدلال کرتا ہے کہ زمین پہلے بنی ہے ۔ دوسرا گروہ سورہ نازعات کی آیات 27 تا 33 سے دلیل لاتا ہے کہ آسمان پہلے بنا ہے ، کیونکہ وہاں اس امر کی تصریح ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کے بعد ہوئی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات کا ذکر طبیعیات یا ہیئت کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر کے لیے پیش فرمایا گیا ہے ۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے غیر ضروری تھی کہ تخلیق آسمان و زمین کی زمانی ترتیب بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان ۔ دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ ، بہرحال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر پہلے کرتا ہے ، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے ۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمال قدرت کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے ، کیونکہ چرخ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :15 ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صناعی کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے ، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے ، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے ، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد ، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے ، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آجاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے ، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے ، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا ، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے ۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا ۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے ۔ اس غرض کے لیے اسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے ، بلکہ اس نے کائنات کے اس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جائے ، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جائے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا ۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا ۔ اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی ۔ ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا ، یہاں تک کہ 48 گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۱۱۵ ، آل عمران ، حواشی ٤٤ ۔ ۵۳ ، جلد دوم ، النحل ، حواشی ۳۵ ۔ ۳٦ ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ ۲۲ ۔ جلد چہارم ، یٰس ، آیت 82 ۔ المومن ، آیت 68 ) ۔