Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَا تَسۡتَوِى الۡحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِىۡ بَيۡنَكَ وَبَيۡنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِىٌّ حَمِيۡمٌ‏ ﴿34﴾
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست ۔
و لا تستوي الحسنة و لا السية ادفع بالتي هي احسن فاذا الذي بينك و بينه عداوة كانه ولي حميم
And not equal are the good deed and the bad. Repel [evil] by that [deed] which is better; and thereupon the one whom between you and him is enmity [will become] as though he was a devoted friend.
Neki aur badi barabar nahi hoti. Buraee ko bhalaee say dafa kero phir wohi jiss kay aur tumharay darmiyan dushmani hai aisa hojayega jaisay dili dost.
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو ( 14 ) نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی ، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ ( تمہارا ) جگری دوست ہو
اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی ، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال ( ف۷۹ ) جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست ( ف۸۰ )
اور اے نبی ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو ۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے 37 ۔
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے ، اور برائی کو بہتر ( طریقے ) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :37 اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پیروؤں کو ، یہ ہدایت دی گئی تھی ۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا ، جس میں اخلاق انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں ۔ ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا ۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے ۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی ۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی ۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں ، اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے ۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے ۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو ، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی ہے ۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں ، خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں ، اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں ۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو درکنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے ۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے ، مسلسل کام کرتی چلی جائے ، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے ۔ کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود دلوں کو مسخر کرتی ہے ، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ، ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے ۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو ۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا ۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے ۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی ، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی ۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی ۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے ۔ لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا ، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے ۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا ۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا ۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں ۔