Surah

Information

Surah # 41 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 61 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ ثُمَّ كَفَرۡتُمۡ بِهٖ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ هُوَ فِىۡ شِقَاقٍۢ بَعِيۡدٍ‏ ﴿52﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں ( حق سے ) دور چلا جائے ۔
قل ارءيتم ان كان من عند الله ثم كفرتم به من اضل ممن هو في شقاق بعيد
Say, "Have you considered: if the Qur'an is from Allah and you disbelieved in it, who would be more astray than one who is in extreme dissension?"
Aap keh dijiyey! Kay bhala yeh to batao kay agar yeh quran Allah ki taraf say aaya hua ho phir tum ney issay na mana pus uss say barh ker behka hua kon hoga jo mukhalifat mein ( haq say ) door chala jaye.
۔ ( اے پیغمبر ان کافروں سے ) کہو کہ : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر یہ ( قرآن ) اللہ کی طرف سے آیا ہے ، پھر بھی تم نے اس کا انکار کیا تو اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو ( اس کی ) مخالفت میں بہت دور نکل گیا ہو؟
تم فرماؤ ( ف۱۳٤ ) بھلا بتاؤ اگر یہ قرآن اللہ کے پاس سے ہے ( ف۱۳۵ ) پھر تم اس کے منکر ہوئے تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو دور کی ضد میں ہے ( ف۱۳٦ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور تم اس کا انکار کرتے رہے تو اس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہوگا جو اس کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟ 69
فرما دیجئے: بھلا تم بتاؤ اگر یہ ( قرآن ) اللہ ہی کی طرف سے ( اُترا ) ہو پھر تم اِس کا انکار کرتے رہو تو اُس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو پرلے درجہ کی مخالفت میں ( پڑا ) ہو
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :69 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سرسری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو ، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو ، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گئے ہو ، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے ۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے ۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے ۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیکھ لو ۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے ، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے ، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں ۔ لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے ، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے ۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو ۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو ، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو ۔
قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا ؟ اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے ۔ مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے ۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی ۔ کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الیٰ کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت ۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا ، بیماری ، تندرستی ، تنگی ، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں ۔ شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے ۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے ۔ جب وہ فرما رہا ہے کہ پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَشْهَدُوْنَ ۭوَكَفٰي بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ١٦٦؀ۭ ) 4- النسآء:166 ) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے پھر فرماتا ہے کہ دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لئے بےفکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں ۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لئے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے ۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے ۔ آپ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے واللہ اعلم ۔ پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ہر چیز پر اس کا احاطہ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے ، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے ۔