Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
كَذٰلِكَ يُوۡحِىۡۤ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَۙ اللّٰهُ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿3﴾
اللہ تعالٰی جو زبردست ہے اور حکمت والا ہےاسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا ۔
كذلك يوحي اليك و الى الذين من قبلك الله العزيز الحكيم
Thus has He revealed to you, [O Muhammad], and to those before you - Allah , the Exalted in Might, the Wise.
Allah Taalaa jo zabardast hai aur hikmat wala hai issi tarah teri taraf aur tujh say aglon ki taraf wahee bhejta raha.
۔ ( اے پیغمبر ) اللہ جو عزیز و حکیم ہے ، تم پر اور تم سے پہلے جو ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ، ان پر اسی طرح وحی نازل کرتا ہے ۔
یونہی وحی فرماتا ہے تمہاری طرف ( ۲ ) اور تم سے اگلوں کی طرف ( ف۳ ) اللہ عزت و حکمت والا ،
اسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے ( رسولوں ) کی طرف وحی کرتا رہا ہے 1 ۔
اسی طرح آپ کی طرف اور اُن ( رسولوں ) کی طرف جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں اللہ وحی بھیجتا رہا ہے جو غالب ہے بڑی حکمت والا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :1 افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل ، ہر چوپال ، ہر کوہ و بازار ، اور ہر مکان اور دکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور قرآن کے مضامین پر ہو رہی تھیں ۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے ۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں ۔ وہ کہتے تھے ، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آرہا ہے ، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے ، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں ، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں وہ صحیح ہے ۔ وہ کہتے تھے ، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں ، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی ، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں ۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ، مگر دراصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں ، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے ۔ وحی کے لغوی معنی ہیں اشارہ سریع اور اشارہ خفی ، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے ، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے ۔ اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے دل میں ڈالی جائے ۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کسی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا ۔ وہ غالب اور حکیم ہے ۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے ، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی ۔ اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے ۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے ۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے ۔ پھر یہ جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں ، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں ۔