سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :2
یہ تمہیدی فقرے محض اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ارشاد نہیں ہو رہے ہیں ، بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے خلاف جو لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے ، ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور وہ اس پر کان کھڑے کر کر کے کہتے تھے کہ اگر اکیلا ایک اللہ ہی معبود ، حاجت روا اور شارع ہے تو پھر ہمارے بزرگ کیا ہوئے؟ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک ہے ۔ مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی اور کی خداوندی آخر کس طرح چل سکتی ہے؟ خصوصاً جبکہ وہ دوسرے جن کی خداوندی مانی جاتی ہے ، یا جو اپنی خداوندی چلانا چاہتے ہیں ، خود بھی اس کے مملوک ہی ہیں ۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ برتر اور عظیم ہے ، یعنی اس سے بالاتر اور بزرگ تر ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو ، اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی حصہ دار بن سکے ۔