Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
تَـكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِهِنَّ‌ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿5﴾
قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالٰی ہی معاف فرمانے والا رحمت والا ہے ۔
تكاد السموت يتفطرن من فوقهن و الملىكة يسبحون بحمد ربهم و يستغفرون لمن في الارض الا ان الله هو الغفور الرحيم
The heavens almost break from above them, and the angels exalt [ Allah ] with praise of their Lord and ask forgiveness for those on earth. Unquestionably, it is Allah who is the Forgiving, the Merciful.
Qareeb hai aasman uper say phat paren aur tamam farishtay apnay rab ki paki tareef kay sath biyan ker rahey hain aur zamin walon kay liye istaghfar ker rahey hain. Khoob samajh rakho kay Allah Taalaa hi maaf farmaney wala rehmat wala hai.
ایسا لگتا ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں گے ، ( ١ ) اور فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں ، اور زمین والوں کے لیے استغفار کر رہے ہیں ۔ یاد رکھو کہ اللہ ہی ہے جو بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
قریب ہوتا ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے شق ہوجائیں ( ف٤ ) اور فرشتے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے اور زمین والوں کے لیے معافی مانگتے ہیں ( ف۵ ) سن لو بیشک اللہ ہی بخشنے والا مہربان ہے ،
قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں 3 ۔ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں 4 ۔ آگاہ رہو ، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے 5 ۔
قریب ہے آسمانی کرّے اپنے اوپر کی جانب سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے جو زمین میں ہیں بخشش طلب کرتے رہتے ہیں ۔ یاد رکھو! اللہ ہی بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :3 یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا ۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس ٹھہرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں ، کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے ۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے ۔ ( یہی مضمون سورہ مریم ، آیات 88 ۔ 91 میں بھی ارشاد ہوا ہے ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے ، اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ، سبحان اللہ ، کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے ، اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے ۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے ، اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک ، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے ۔