Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَكَذٰلِكَ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّـتُـنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰى وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَتُنۡذِرَ يَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ‌ؕ فَرِيۡقٌ فِى الۡجَنَّةِ وَفَرِيۡقٌ فِى السَّعِيۡرِ‏ ﴿7﴾
اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں ۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا ۔
و كذلك اوحينا اليك قرانا عربيا لتنذر ام القرى و من حولها و تنذر يوم الجمع لا ريب فيه فريق في الجنة و فريق في السعير
And thus We have revealed to you an Arabic Qur'an that you may warn the Mother of Cities [Makkah] and those around it and warn of the Day of Assembly, about which there is no doubt. A party will be in Paradise and a party in the Blaze.
Issi tarah hum ney aap ki taraf arabi quran ki wahee ki hai takay aap makkah walon ko aur uss kay aas pass logon ko khabardar ker den aur jama honey kay din say jiss kay aanay mein koi shak nahi dara den. Aik giroh jannat mein hoga aur aik giroh jahannum mein hoga.
اور اسی طرح ہم نے یہ عربی قرآن تم پر وحی کے ذریعے بھیجا ہے ، تاکہ تم مرکزی بستی ( مکہ ) اور اس کے ارد گرد والوں کو اس دن سے خبردار کرو جس میں سب کو جمع کیا جائے گا ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ۔
اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن وحی بھیجا کہ تم ڈراؤ سب شہروں کی اصل مکہ والوں کو اور جتنے اس کے گرد ہیں ( ف۹ ) اور تم ڈراؤ اکٹھے ہونے کے دن سے جس میں کچھ شک نہیں ( ف۱۰ ) ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں ،
ہاں ، اسی طرح اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے 8 تاکہ تم بستیوں کے مرکز ( شہر مکہ ) اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو 9 ، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو 10 جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ۔
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی کی تاکہ آپ مکّہ والوں کو اور اُن لوگوں کو جو اِس کے اِردگرد رہتے ہیں ڈر سنا سکیں ، اور آپ جمع ہونے کے اُس دن کا خوف دلائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ( اُس دن ) ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا گروہ دوزخ میں ہوگا
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :8 وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی ۔ اور قرآن عربی کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، تمہاری اپنی زبان میں ہے ۔ تم براہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو ، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :9 یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو ، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :10 یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا ۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے ۔
قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے ۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو ۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں ! یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے ۔ ترمذی نسائی ، ابن ماجہ ، مسند احمد وغیرہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا آپ مکہ شریف کے بازار خزروع میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ قسم ہے اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں اور اس لئے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے ۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہوگا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے آیت ( ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ ١٠٣؁ ) 11-ھود:103 ) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے ۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لئے مؤخر کئے ہوئے ہیں ۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کر سکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ فرمائیے ۔ آپ نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے انکے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے ۔ صحابہ نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لئے رہو ۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو ۔ پھر آپ نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرلیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کر چکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں ۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا ۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نامی صحابی بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے ۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لئے ہیں یعنی جنت کے لئے اور یہ اس کے لئے ہیں یعنی جہنم کے لئے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کر دیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کر لے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کر لیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں ۔