Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنۡ يُّدۡخِلُ مَنۡ يَّشَآءُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ؕ وَالظّٰلِمُوۡنَ مَا لَهُمۡ مِّنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏ ﴿8﴾
اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں ۔
و لو شاء الله لجعلهم امة واحدة و لكن يدخل من يشاء في رحمته و الظلمون ما لهم من ولي و لا نصير
And if Allah willed, He could have made them [of] one religion, but He admits whom He wills into His mercy. And the wrongdoers have not any protector or helper.
Agar Allah Taalaa chahata to inn sab ko aik hi ummat ka bana deta lekin woh jissay chahata hai apni rehmat mein dakhil ker leta hai aur zalimon ka haami aur madadgar koi nahi.
اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی جماعت بنا دیتا ، ( ٢ ) لیکن وہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ، اور جو ظالم لوگ ہیں ان کا نہ کوئی رکھوالا ہے ، نہ کوئی مددگار ہے ۔
اور اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک دین پر کردیتا لیکن اللہ اپنی رحمت میں لیتا ہے جسے چاہے ( ف۱۱ ) اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ مددگار ( ف۱۲ )
اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار 11 ۔
اور اگر اللہ چاہتا تو اُن سب کو ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے ، اور ظالموں کے لئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :11 یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے : اولاً ، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے ۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی ، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا ، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا ، پہاڑ ، درخت ، مٹی ، پتھر اور سب حیوانات ہیں ( اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حواشی۲۳ تا ۲۵ ، ۷۱ ) ۔ ثانیاً ، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا ، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات ، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا ۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے ( اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حواشی ۸۰ ۔ ۱۱۰ ۔ ۱۲٤ ۔ ۱۲۵ ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ ۱۰۱ ، ہود ، حاشیہ۱۱٦ ، النحل ، حواشی ۱۰ ۔ ۳۱ ۔ ۳۲ ) ثالثاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تاکہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ( اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الرعد ، حواشی ٤۷ تا ٤۹ ، النحل ، حواشی ۸۹ تا ۹۷ ) ۔ ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے ۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزوں نہ سمجھا گیا ۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے ۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے ۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے ۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے ۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے ۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے ۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم ، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں ۔