Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
اَللّٰهُ لَطِيۡفٌۢ بِعِبَادِهٖ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ‌ۚ وَهُوَ الۡقَوِىُّ الۡعَزِيۡزُ‏ ﴿19﴾
اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے ، جسے چاہتا ہے کشادہ روزی دیتا ہے اور وہ بڑی طاقت بڑے غلبہ والا ہے ۔
الله لطيف بعباده يرزق من يشاء و هو القوي العزيز
Allah is Subtle with His servants; He gives provisions to whom He wills. And He is the Powerful, the Exalted in Might.
Allah Taalaa apnay bandon per bara hi lutf kerney wala hai jissay chahata hai kushada rozi deta hai aur woh bari taqat baray ghalbay wala hai.
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ، وہ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے ، اور وہی ہے جو قوت کا بھی مالک ہے ، اقتدار کا بھی مالک ہے ۔
اللہ اپنے بندوں پر لطف فرماتا ہے ( ف۵۲ ) جسے چاہے روزی دیتا ہے ( ف۵۳ ) اور وہی قوت و عزت والا ہے ،
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے 34 ۔ جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے ، 35 وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے 36 ۔ ع
اللہ اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم فرمانے والا ہے ، جسے چاہتا ہے رِزق و عطا سے نوازتا ہے اور وہ بڑی قوت والا بڑی عزّت والا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :34 اصل میں لفظ لَطِیْفٌ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مہربان سے ادا نہیں ہوتا ۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی ۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں ، بلکہ تمام بندے ہیں ، یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بندوں پر عام ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :35 مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جائے ۔ اگرچہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے ، مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے ۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز ۔ کسی کو ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :36 یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے ۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے ، یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے ، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے ۔
غفورو رحیم اللہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے روزی پہنچا رہا ہے ایک بھی نہیں جسے اللہ بھول جائے نیک بد ہر ایک اس کے ہاں کا وظیفہ خوار ہے جیسے فرمایا ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝ ) 11-ھود:6 ) ، زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کی روزیوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے وہ ہر ایک کے رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا بھی ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے کشادہ روزی مقرر کرتا ہے وہ طاقتور غالب ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی پھر فرماتا ہے جو آخرت کے اعمال کی طرف توجہ کرتا ہے ہم خود اس کی مدد کرتے ہیں اسے قوت طاقت دیتے ہیں اس کی نیکیاں بڑھاتے رہتے ہیں کسی نیکی کو دس گنی کر دیتے ہیں کسی کو سات سو گنا کسی کو اس سے بھی زیادہ الغرض آخرت کی چاہت جس دل میں ہوتی ہے اس شخص کو نیک اعمال کی توفیق اللہ کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اور جس کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں آخرت کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تو وہ دونوں جہاں سے محروم رہتا ہے دنیا کا ملنا اللہ کے ارادے پر موقوف ہے ممکن ہے وہ ہزاروں جتن کر لے اور دنیا سے بھی محروم رہ جائے دوسری آیت میں اس مضمون کو مقید بیان کیا گیا ہے ۔ فرمان ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ ) 17- الإسراء:18 ) ، یعنی جو شخص دنیا کا ہو گا ایسے لوگوں میں سے ہم جسے چاہیں اور جتنا چاہیں دے دیں گے پھر اس کے لئے جہنم تجویز کریں گے جس میں وہ بدحال اور راندہ درگاہ ہو کر داخل ہو گا اور جو آخرت کی طلب کرے گا اور اس کے لئے جو کوشش کرنی چاہیے کرے گا اور وہ با ایمان بھی ہو گا ۔ تو ناممکن ہے کہ اس کی کوشش کی قدر دانی نہ کی جائے ۔ دنیوی بخشش و عطا تو عام ہے ۔ اس سے ہم ان سب کی امداد کیا کرتے ہیں اور تیرے رب کی یہ دنیوی عطا کسی پر پسند نہیں ، خود دیکھ لو کہ ہم نے ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دے رکھی ہے یقین مان لو کہ درجوں کے اعتبار سے بھی اور فضیلت کی حیثیت سے بھی آخرت بہت بڑی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس امت کو برتری اور بلندی کی نصرت اور سلطنت کی خوشخبری ہو ان میں سے جو شخص دینی عمل دنیا کے لئے کرے گا اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا پھر فرمایا ہے کہ یہ مشرکین دین اللہ کی تو پیروی کرتے نہیں بلکہ جن شیاطین اور انسانوں کو انہوں نے اپنا بڑا سمجھ رکھا ہے یہ جو احکام انہیں بتاتے ہیں انہی احکام کے مجموعے کو دین سمجھتے ہیں ۔ حلال و حرام کا تعین اپنے ان بڑوں کے کہنے پر کرتے ہیں انہی کے ایجاد کردہ عبادات کے طریقے استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مال کے احکام بھی ازخود تراشیدہ ہیں جنہیں شرعی سمجھ بیٹھے ہیں چنانچہ جاہلیت میں بعض جانوروں کو انہوں نے از خود حرام کر لیا تھا مثلا وہ جانور جس کا کان چیر کر اپنے معبودان باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور داغ دے کر سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور مادہ بچے کو حمل کی صورت میں ہی ان کے نام کر دیتے تھے جس اونٹ سے دس بچے حاصل کرلیں اسے ان کے نام چھوڑ دیتے تھے پھر انہیں ان کی تعظیم کے خیال سے اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے ۔ اور بعض چیزوں کو حلال کر لیا تھا جیسے مردار ، خون اور جوا ۔ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے عمرو بن لحی بن قمعہ کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے غیر اللہ کے نام پر جانوروں کا چھوڑنا بتایا یہ شخص خزاعہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھا اسی نے سب سے پہلے ان کاموں کی ایجاد کی تھی ۔ جو جاہلیت کے کام عربوں میں مروج تھے ۔ اسی نے قریشیوں کو بت پرستی میں ڈال دیا اللہ اس پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے ۔ فرماتا ہے کہ اگر میری یہ بات پہلے سے میرے ہاں طے شدہ نہ ہوتی کہ میں گنہگاروں کو قیامت کے آنے تک ڈھیل دوں گا تو میں آج ہی ان کفار کو اپنے عذاب میں جکڑ لیتا اب انہیں قیامت کے دن جہنم کے المناک اور بڑے سخت عذاب ہوں گے میدان قیامت میں تم دیکھو گے کہ یہ ظالم لوگ اپنے کرتوتوں سے لرزاں و ترساں ہوں گے ۔ مارے خوف کے تھرا رہے ہوں گے لیکن آج کوئی چیز نہ ہوگی جو انہیں بچا سکے ۔ آج تو یہ اعمال کا مزہ چکھ کر ہی رہیں گے ان کے بالکل برعکس ایماندار نیکو کار لوگوں کا حال ہو گا کہ وہ امن چین سے جنتوں کے باغات میں مزے کر رہے ہوں گے ان کی ذلت و رسوائی ڈر خوف ان کی عزت بڑائی امن چین کا خیال کر لو وہ طرح طرح کی مصیبتوں تکلیفوں میں ہوں گے یہ طرح طرح کی راحتوں اور لذتوں میں ہوں گے ۔ عمدہ بہترین غذائیں ، بہترین لباس ، مکانات ، بہترین بیویاں اور بہترین سازو سامان انہیں ملے ہوئے ہوں گے جن کا دیکھنا سننا تو کہاں ؟ کسی انسان کے ذہن اور تصور میں بھی یہ چیزیں نہیں آسکتیں ۔ حضرت ابو طیبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتیوں کے سروں پر ابر آئے گا اور انہیں ندا ہو گی کہ بتاؤ کس چیز کی بارش چاہتے ہو؟ پس جو لوگ جس چیز کی بارش چاہیں گے وہی چیز ان پر اس بادل سے برسے گی یہاں تک کہ کہیں گے ہم پر ابھرے ہوئے سینے والی ہم عمر عورتیں برسائی جائیں چنانچہ وہی برسیں گی ۔ اسی لئے فرمایا کہ فضل کبیر یعنی زبردست کامیابی کامل نعمت یہی ہے ۔