Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍؕ‏ ﴿30﴾
تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔
و ما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم و يعفوا عن كثير
And whatever strikes you of disaster - it is for what your hands have earned; but He pardons much.
Tumhen jo kuch museebaten phonchti hai woh tumharay apnay hathon kay kartoot ka badla hai aur woh to boht si baton say darguzar farma deta hai.
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے ، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگذر ہی کرتا ہے ۔
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ( ف۸۳ ) اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے ،
تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے ، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے 52 ۔
اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس ( بد اعمالی ) کے سبب سے ہی ( پہنچتی ہے ) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی ( کوتاہیوں ) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :52 واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے ، بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا ، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں ( غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف ) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ ، اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو ، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کارساز بنائے بیٹھے ہو ، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے ، وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں ۔ مزید توضیح کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے ۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں ۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ نَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذًی ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشاکھُا الا کفّر اللہ بھا من خطایاہ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے ، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے ۔ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے ، تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں ۔