Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
اِنَّا جَعَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿3﴾
ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو ۔
انا جعلنه قرءنا عربيا لعلكم تعقلون
Indeed, We have made it an Arabic Qur'an that you might understand.
Hum ney iss ko arabi zaban ka quran banaya hai kay tum samjh lo.
ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے ، تاکہ تم سمجھو ۔
ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ( ف۳ )
کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اسے سمجھو 1 ۔
بیشک ہم نے اسے عربی ( زبان ) کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :1 قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ہم ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب مبین ہے ۔ اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو ، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے ، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو ، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین ، اس کی زبان ، اس کا ادب ، اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم ، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو ، اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے ، اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی ۔ یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کر سکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جبکہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے ۔ لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کیسے کر سکتے ہو ۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح ہے ۔ اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون ، دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے ۔ خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہو سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے ۔ عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے ۔ ( اس دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ حٰم السجدہ ، آیت 44 مع حاشیہ نمبر 54 ملاحظہ فرمائیں )