Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَاِنَّهٗ فِىۡۤ اُمِّ الۡكِتٰبِ لَدَيۡنَا لَعَلِىٌّ حَكِيۡمٌؕ‏ ﴿4﴾
یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے ۔
و انه في ام الكتب لدينا لعلي حكيم
And indeed it is, in the Mother of the Book with Us, exalted and full of wisdom.
Yaqeenan yeh loh-e-mehfooz mein hai aur humaray nazdeek buland martba hikmat wali hai.
اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بڑے اونچے درجے کی حکمت سے بھری ہوئی کتاب ہے ۔ ( ١ )
اور بیشک وہ اصل کتاب میں ( ف٤ ) ہمارے پاس ضرور بلندی و حکمت والا ہے ،
اور درحقیقت یہ ام الکتاب میں ثبت ہے 2 ، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب3 ۔
بیشک وہ ہمارے پاس سب کتابوں کی اصل ( لوحِ محفوظ ) میں ثَبت ہے یقیناً ( یہ سب کتابوں پر ) بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :2 امّ الکتاب سے مراد ہے اصل الکتاب یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں ۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ ( پوشیدہ اور محفوظ کتاب ) کہا گیا ہے ، اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے ۔ قرآن کے متعلق یہ فرما کر کہ یہ امّ الکتاب میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں میں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں ، مگر ان سب میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے ، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے ، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے ، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں ۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے ، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں ۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا ۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی ، عبارتیں کچھ اور ہوتیں ، زبان بھی دوسری ہوتی ، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی ، اور وہ یہی قرآن ہوتا ( اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِنَّہ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ( 192 ۔ 196 ) ۔ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں ، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حواشی ۱۱۹ ۔ ۱۲۱ ) سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :3 اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی ۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے ۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے ۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے ۔ کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی ، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی ۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم ، اس کی معجزانہ بلاغت ، اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے ۔ یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی ۔ آگے چل کر آیت 44 میں قریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح ناقدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی ۔ ( ملاحظہ ہو حاشیہ 39 )
قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں جس کے الفاظ نورانی ہیں جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے یہ اس لئے کہ لوگ سوچیں سمجھیں اور وعظ و پند نصیحت و عبرت حاصل کریں ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے جیسے اور جگہ ہے عربی واضح زبان میں اسے نازل فرمایا ہے ، اس کی شرافت و مرتبت جو عالم بالا میں ہے اسے بیان فرمایا تاکہ زمین والے اس کی منزلت و توقیر معلوم کرلیں ۔ فرمایا کہ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ( لدینا ) سے مراد ہمارے پاس ( لعلی ) سے مراد مرتبے والا عزت ولا شرافت اور فضیلت والا ہے ۔ ( حکیم ) سے مراد ( محکم ) مضبوط جو باطل کے ملنے اور ناحق سے خلط ملط ہو جانے سے پاک ہے اور آیت میں اس پاک کلام کی بزرگی کا بیان ان الفاظ میں ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77۝ۙ ) 56- الواقعة:77 ) ، اور جگہ ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11۝ۚ ) 80-عبس:11 ) ، یعنی یہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اسے بجز پاک فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ لگا نہیں پاتا یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے اور فرمایا قرآن نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے وہ ایسے صحیفوں میں سے ہے جو معزز ہیں بلند مرتبہ ہیں اور مقدس ہیں جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ذی عزت اور پاک ہیں ان دونوں آیتوں سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے جیسے کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو جائے ۔ اس لئے کہ عالم بالا میں فرشتے اس کتاب کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جس میں یہ قرآن لکھا ہوا ہے ۔ پس اس عالم میں ہمیں بطور اولیٰ اسکی بہت زیادہ تکریم و تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ زمین والوں کی طرف ہی بھیجا گیا ہے اور اس کا خطاب انہی سے ہے تو انہیں اس کی بہت زیادہ تعظیم اور ادب کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اس کے احکام کو تسلیم کر کے ان پر عامل بن جانا چاہیے کیونکہ رب کا فرمان ہے کہ یہ ہمارے ہاں ام الکتاب میں ہے اور بلند پایہ اور باحکمت ہے اس کے بعد کی آیت کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اطاعت گذاری اور فرمانبرداری نہ کرنے کے ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہیں عذاب نہ کریں گے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس امت کے پہلے گزرنے والوں نے جب اس قرآن کو جھٹلایا اسی وقت اگر یہ اٹھا لیا جاتا تو تمام دنیا ہلاک کر دی جاتی لیکن اللہ کی وسیع رحمت نے اسے پسند نہ فرمایا اور برابر بیس سال سے زیادہ تک یہ قرآن اترتا رہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی لطف و رحمت ہے کہ وہ نہ ماننے والوں کے انکار اور بد باطن لوگوں کی شرارت کی وجہ سے انہیں نصیحت و موعظت کرنی نہیں چھوڑتا تاکہ جو ان میں نیکی والے ہیں وہ درست ہو جائیں اور جو درست نہیں ہوتے ان پر حجت تمام ہو جائے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی اکرم آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب پر گھبرائیں نہیں ۔ صبر و برداشت کیجئے ۔ ان سے پہلے کی جو قومیں تھیں ان کے پاس بھی ہم نے اپنے رسول و نبی بھیجے تھے اور انہیں ہلاک کر دیا وہ آپ کے زمانے کے لوگوں سے زیادہ زور اور اور باہمت اور توانا ہاتھوں والے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں ؟ کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا ؟ جو ان سے تعداد میں اور قوت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں پھر فرماتا ہے اگلوں کی مثالیں گذر چکیں یعنی عادتیں ، سزائیں ، عبرتیں ۔ جیسے اس سورت کے آخر میں فرمایا ہے ہم نے انہیں گذرے ہوئے اور بعد والوں کے لئے عبرتیں بنا دیا ۔ اور جیسے فرمان ہے آیت ( سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا 23؀ ) 48- الفتح:23 ) ، یعنی اللہ کا طریقہ جو اپنے بندوں میں پہلے سے چلا آیا ہے اور تو اسے بدلتا ہوا نہ پائے گا ۔