Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ مَهۡدًا وَّ جَعَلَ لَكُمۡ فِيۡهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿10﴾
وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش ( بچھونا ) بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے کر دیئے تاکہ تم راہ پا لیا کرو ۔
الذي جعل لكم الارض مهدا و جعل لكم فيها سبلا لعلكم تهتدون
[The one] who has made for you the earth a bed and made for you upon it roads that you might be guided
Wohi hai jiss ney tumharay liye zamin ko farash ( bichona ) banaya aur iss mein tumharay liye rastay ker diyey takay tum raah paa liya kero.
یہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا ، اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے ، تاکہ تم منزل تک پہنچ سکو ۔
جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لیے اس میں راستے کیے کہ تم راہ پاؤ ( ف۱۰ )
وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا 7 اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے 8 تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو 9 ۔
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ تم منزلِ مقصود تک پہنچ سکو
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :7 دوسرے مقامات پر تو زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ یعنی جس طرح ایک بچہ اپنے پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے ، ایسے آرام کی جگہ تمہارے لیے اس عظیم الشان کرے کو بنا دیا جو فضا میں معلق ہے ۔ جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے ۔ جو 66600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے ۔ جسکے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پر سکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا ۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کرہ معلق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو ۔ تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آ تا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو ، حالانکہ اس کی ایک معمولی سی جھر جھری کبھی زلزلے کی شکل میں آ کر تمہیں خبر دے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حواشی ۷٤ ۔ ۷۵ ) سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :8 پہاڑوں کے بیچ بیچ میں درے ، اور پھر کوہستانی اور میدانی علاقوں میں دریا وہ قدرتی راستے ہیں جو اللہ نے زمین کی پشت پر بنا دیے ہیں ۔ انسان ان ہی کی مدد سے کرہ زمین پر پھیلا ہے ۔ اگر پہاڑی سلسلوں کو کسی شگاف کے بغیر بالکل ٹھوس دیوار کی شکل میں کھڑا کر دیا جاتا اور زمین میں کہیں دریا ، ندیاں ، نالے نہ ہوتے تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا اسی علاقے میں مقید ہو کر رہ جاتا ۔ پھر اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ تمام روئے زمین کو یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ، بلکہ اس میں قسم قسم کے ایسے امتیازی نشانات ( Land marks ) قائم کر دیے جن کی مدد سے انسان مختلف علاقوں کو پہچانتا ہے اور ایک علاقے اور دوسرے علاقے کا فرق محسوس کرتا ہے ۔ یہ دوسرا اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کے لیے زمین میں نقل و حرکت آسان ہوئی ۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے کسی لق و دق صحرا میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے ، جہاں سینکڑوں میل تک زمین ہر قسم کے امتیازی نشانات سے خالی ہوتی ہے اور آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے اور آگے کدھر جائے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :9 یہ فقرہ بیک وقت دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک معنی یہ کہ تم ان قدرتی راستوں اور ان نشانات راہ کی مدد سے اپنا راستہ معلوم کر سکو اور اس جگہ تک پہنچ سکو جہاں جانا چاہتے ہو ۔ دوسرے معنی یہ کہ اللہ جل شانہ کی اس کاری گری کو دیکھ کر تم ہدایت حاصل کر سکو ، حقیقت نفس الامری کو پاسکو ، اور یہ سمجھ سکو کہ زمین میں یہ انتظام اَلل ٹپ نہیں ہو گیا ہے ، نہ بہت سے خداؤں نے مل کر یہ تدبیر کی ہے بلکہ ایک رب حکیم ہے جس نے اپنی مخلوق کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر پہاڑوں اور میدانوں میں یہ راستے بنائے ہیں اور زمین کے ایک ایک خطے کو بے شمار طریقوں سے ایک الگ شکل دی ہے جس کی بدولت انسان ہر خطے کو دوسرے سے ممیز کر سکتا ہے ۔
اصلی زاد راہ تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ان مشرکین سے دریافت کرو تو یہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر یہی اس کی وحدانیت کو جان کر اور مان کر عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جس نے زمین کو فرش اور ٹھہرئی ہوئی قرار گاہ اور ثابت و مضبوط بنایا جس پر تم چلو ، پھرو ، رہو ، سہو ، اٹھو ، بیٹھو ، سوؤ ، جاگو ۔ حالانکہ یہ زمین خود پانی پر ہے لیکن مضبوط پہاڑوں کے ساتھ اسے ہلنے جلنے سے روک دیا ہے اور اس میں راستے بنا دئیے ہیں تاکہ تم ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچ سکو اسی نے آسمان سے ایسے انداز سے بارش برسائی جو کفایت ہو جائے کھیتیاں اور باغات سر سبز رہیں پھلیں پھولیں اور پانی تمہارے اور تمہارے جانوروں کے پینے میں بھی آئے پھر اس مینہ سے مردہ زمین زندہ کر دی خشکی تری سے بدل گئی جنگل لہلہا اٹھے پھل پھول اگنے لگے اور طرح طرح کے خوشگوار میوے پیدا ہوگئے پھر اسی کو مردہ انسانوں کے جی اٹھنے کی دلیل بنایا اور فرمایا اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے اس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے کھیتیاں پھل پھول ترکاریاں اور میوے وغیرہ طرح طرح کی چیزیں اس نے پیدا کر دیں ۔ مختلف قسم کے حیوانات تمہارے نفع کے لئے پیدا کئے کشتیاں سمندروں کے سفر کے لئے اور چوپائے جانور خشکی کے سفر کے لئے مہیا کر دئیے ان میں سے بہت سے جانوروں کے گوشت تم کھاتے ہو بہت سے تمہیں دودھ دیتے ہیں بہت سے تمہاری سواریوں کے کام آتے ہیں ۔ تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں تم ان پر سواریاں لیتے ہو اور خوب مزے سے ان پر سوار ہوتے ہو ۔ اب تمہیں چاہیے کہ جم کر بیٹھ جانے کے بعد اپنے رب کی نعمت یاد کرو کہ اس نے کیسے کیسے طاقتور وجود تمہارے قابو میں کر دئیے اور یوں کہو کہ وہ اللہ پاک ذات والا ہے جس نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا اگر وہ اسے ہمارا مطیع نہ کرتا تو ہم اس قابل نہ تھے نہ ہم میں اتنی طاقت تھی ۔ اور ہم اپنی موت کے بعد اسی کی طرف جانے والے ہیں اس آمدورفت سے اور اس مختصر سفر سے سفر آخرت یاد کرو جیسے کہ دنیا کے توشے کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے آخرت کے توشے کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا توشہ لے لیا کرو لیکن بہترین توشہ آخرت کا توشہ ہے اور دنیوی لباس کے ذکر کے موقعہ پر اخروی لباس کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا لباس تقوٰی افضل و بہتر ہے ، ـ سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعاؤں کی حدیثیں حضرت علی بن ربیعہ فرماتے ہیں حضرت علی جب اپنی سواری پر سوار ہونے لگے تو رکاب پر پیر رکھتے ہی فرمایا ( بسم اللہ ) جب جم کر بیٹھ گئے تو فرمایا دعا ( الحمد للہ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون ) پھر تین مرتبہ ( الحمد للہ ) اور تین مرتبہ ( اللہ اکبر ) پھر فرمایا دعا ( سبحانک لا الہ الا انت قد ظلمت نفسی فاغفرلی ) پھر ہنس دئیے ۔ میں نے پوچھا امیر المومنین آپ ہنسے کیوں ؟ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے یہ سب کچھ کیا پھر ہنس دئیے تو میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب دیا کہ جب بندے کے منہ سے اللہ تعالیٰ سنتا ہے کہ وہ کہتا ہے ( رب اغفرلی ) میرے رب مجھے بخش دے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور فرماتا ہے میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا ۔ یہ حدیث ابو داؤد ترمذی نسائی اور مسند احمد میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ٹھیک جب بیٹھ گئے تو آپ نے تین مرتبہ ( اللہ اکبر ) کا تین مرتبہ ( سبحان اللہ ) اور ایک مرتبہ ( لا الہ الا اللہ ) کہا پھر اس پر چت لیٹنے کی طرح ہو کر ہنس دئیے اور حضرت عبد اللہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے جو شخص کسی جانور پر سوار ہو کر اس طرح کرے جس طرح میں نے کیا تو اللہ عزوجل اس کی طرف متوجہ ہو کر اسی طرح ہنس دیتا ہے جس طرح میں تیری طرف دیکھ کر ہنسا ( مسند احمد ) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی سواری پر سوار ہوتے تین مرتبہ تکبیر کہہ کر ان دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کرتے پھر یہ دعا مانگتے ( اللھم انی اسئلک فی سفری ھذا البر والتقوی و من العمل ما ترضی اللھم ھون علینا السفر اطولنا البعد اللھم انت الصاحب فی السفر و الخلیفۃ فی الاھل اللھم اصبحنا فی سفرنا واخلفنا فی اھلنا ) یا اللہ میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا طالب ہوں اور ان اعمال کا جن سے تو خوش ہو جائے اے اللہ ہم پر ہمارا سفر آسان کر دے اور ہمارے لئے دوری کو لپیٹ لے پروردگار تو ہی سفر کا ساتھی اور اہل و عیال کا نگہباں ہے میرے معبود ہمارے سفر میں ہمارا ساتھ دے اور ہمارے گھروں میں ہماری جانشینی فرما ۔ اور جب آپ سفر سے واپس گھر کی طرف لوٹتے تو فرماتے دعا ( ائبون تائبون ان شاء اللہ عابدون لربنا حامدون ) یعنی واپس لوٹنے والے توبہ کرنے والے انشاء اللہ عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی تعریفیں کرنے والے ( مسلم ابو داؤد نسائی وغیرہ ) ابو لاس خزاعی فرماتے ہیں صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سواری کے لئے ہمیں عطا فرمایا کہ ہم اس پر سوار ہو کر حج کو جائیں ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نہیں دیکھتے کہ آپ ہمیں اس پر سوار کرائیں ۔ آپ نے فرمایا سنو ہر اونٹ کی کوہان میں شیطان ہوتا ہے تم جب اس پر سوار ہو تو جس طرح میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو پھر اسے اپنے لئے خادم بنا لو ، یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہی سوار کراتا ہے ۔ ( مسند احمد ) حضرت ابو لاس کا نام محمد بن اسود بن خلف ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر اونٹ کی پیٹھ پر شیطان ہے تو تم جب اس پر سواری کرو تو اللہ کا نام لیا کرو پھر اپنی حاجتوں میں کمی نہ کرو ۔