Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقُلۡنَا يٰٓـاٰدَمُ اسۡكُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُكَ الۡجَـنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿35﴾
اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم !تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے ۔
و قلنا يادم اسكن انت و زوجك الجنة و كلا منها رغدا حيث شتما و لا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظلمين
And We said, "O Adam, dwell, you and your wife, in Paradise and eat therefrom in [ease and] abundance from wherever you will. But do not approach this tree, lest you be among the wrongdoers."
Aur hum ney keh diya kay aey aadam! Tum aur tumhari biwi jannat mein raho aur jahan kahin say chahao ba faraghat khao piyo lekin uss darakht kay qareeb na jana werna zalim hojao gay.
اور ہم نے کہا آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا ( ٣٣ ) ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے
اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا ( ف٦۲ ) کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔ ( ف٦۳ )
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ “تم اور تمہاری بیوی ، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ ، مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا 48 ، ورنہ ظالموں 49 میں شمار ہوگے” ۔
اور ہم نے حکم دیا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو ، جہاں سے چاہو کھاؤ ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں ( شامل ) ہو جاؤ گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :48 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین ، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے ۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا ، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پاؤ گے ۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا ۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا ۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا ۔ اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا ۔ اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا ۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کرنا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہ انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے ۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے ۔ اپنے اس مقامِ لائق ، اپنی اس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :49 ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے ۔ ”ظلم“ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں ۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے ۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے ، وہ درحقیقت تین بڑے بنیادی حقوق تلف کرتا ہے ۔ اوّلاً خدا کا حق ، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے ۔ ثانیاً ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا ۔ اس کے اعضا ئے جسمانی ، اس کے قوائے نفس ، اس کے ہم معاشرت انسان ، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں ، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں ، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے ۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے ، تو درحقیقت ان پر ظلم کیا ۔ ثَا لثًا خود اپنا حق ، کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے ، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے ، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے ۔ انہی وجُوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ۔
اعزاز آدم علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حضرت آدم نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں! نبی بھی ، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی ۔ سورۃ اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا ۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی ۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا ۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں ۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی ۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ جاگے ، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے؟ حضرت آدم نے کہا حوا انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی ، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا ۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی ۔ کوئی کہتا ہے ۔ گیہوں کا درخت تھا ۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے ۔ کسی نے کھجور ، کسی نے انجیر کہا ہے ۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں ۔ کسی نے کہا ہے ، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا ۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے ۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے ۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے ۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا ۔ سفر ارضی کا آغاز لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت ( یوفک عنہ ) میں ۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان ، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے ، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے ۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا ۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے ، تاہم ہم انہیں سورۃ اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا ۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے ، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! میرے پاس سے چلے جاؤ ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے ، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں ۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا ۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا ۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے ، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر دھنا میں اترے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں ۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے ۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا ۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے ۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی ۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں ۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا ۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں ، دیکھئے! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں ۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے ، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے ، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں ۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے ۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا ۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں ۔