Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
وَلَا يَمۡلِكُ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنۡ شَهِدَ بِالۡحَـقِّ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿86﴾
جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہاں ( مستحق شفاعت وہ ہیں ) جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو ۔
و لا يملك الذين يدعون من دونه الشفاعة الا من شهد بالحق و هم يعلمون
And those they invoke besides Him do not possess [power of] intercession; but only those who testify to the truth [can benefit], and they know.
Jinehn yeh log Allah kay siwa pukartay hain woh shifaat kerney ka ikhtiyar nahi rakhtay haan ( mustahiq-e-shifaat woh hain ) jo haq baat ka iqrar keren aur unhen ilm bhi ho.
اور یہ لوگ اسے چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہیں ، انہیں کوئی سفارش کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ، ہاں البتہ جن لوگوں نے حق بات کی گواہی دی ہو ، اور انہیں اس کا علم بھی ہو ۔ ( ٢٢ )
اور جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے ، ہاں شفاعت کا اختیار انہیں ہے جو حق کی گواہی دیں ( ف۱۳۵ ) اور علم رکھیں ( ف۱۳٦ )
اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے ، الا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے 68 ۔
اور جن کی یہ ( کافر لوگ ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ ( تو ) شفاعت کا ( کوئی ) اختیار نہیں رکھتے مگر ( ان کے برعکس شفاعت کا اختیار ان کو حاصل ہے ) جنہوں نے حق کی گواہی دی اور وہ اسے ( یقین کے ساتھ ) جانتے بھی تھے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :68 اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں : ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں ۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے ۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ ( نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی ۔ دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر ( نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ ) حق کی شہادت دی ہو ۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا ، یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا الٰہ الا اللہ بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا ۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں ، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں ، تو وہ غلط کہتا ہے ۔ یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے ۔ لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اور یقیناً نہیں ہے ، تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر ، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو ، اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے ۔ اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں ۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو ، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے ۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا ، ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے ۔ لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے ۔ ثانیاً ، اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے ۔ گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے ۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذا رأیت مثل الشمس فاشہد و الّا فدع ( احکام القرآن للجصّاص ) اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے دے ۔