Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغۡشٰى طَآٮِٕفَةً مِّنۡكُمۡ‌ۙ وَطَآٮِٕفَةٌ قَدۡ اَهَمَّتۡهُمۡ اَنۡفُسُهُمۡ يَظُنُّوۡنَ بِاللّٰهِ غَيۡرَ الۡحَـقِّ ظَنَّ الۡجَـاهِلِيَّةِ‌ؕ يَقُوۡلُوۡنَ هَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَىۡءٍ‌ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ‌ؕ يُخۡفُوۡنَ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ مَّا لَا يُبۡدُوۡنَ لَكَ‌ؕ يَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ كَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَىۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا هٰهُنَا ‌ؕ قُلۡ لَّوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ لَبَرَزَ الَّذِيۡنَ كُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمۡ‌ۚ وَلِيَبۡتَلِىَ اللّٰهُ مَا فِىۡ صُدُوۡرِكُمۡ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿154﴾
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی ۔ ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی ، وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگُمانیاں کر رہے تھے اور کہتے تھے کیا ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے ؟آپ کہہ دیجئیے کہ کام کُل کا کُل اللہ کے اختیار میں ہے ، یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ گو تم اپنے گھروں میں ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے اللہ تعالٰی کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پاک کرنا تھا ، اور اللہ تعالٰی سینوں کے بھید سے آگاہ ہے ۔
ثم انزل عليكم من بعد الغم امنة نعاسا يغشى طاىفة منكم و طاىفة قد اهمتهم انفسهم يظنون بالله غير الحق ظن الجاهلية يقولون هل لنا من الامر من شيء قل ان الامر كله لله يخفون في انفسهم ما لا يبدون لك يقولون لو كان لنا من الامر شيء ما قتلنا ههنا قل لو كنتم في بيوتكم لبرز الذين كتب عليهم القتل الى مضاجعهم و ليبتلي الله ما في صدوركم و ليمحص ما في قلوبكم و الله عليم بذات الصدور
Then after distress, He sent down upon you security [in the form of] drowsiness, overcoming a faction of you, while another faction worried about themselves, thinking of Allah other than the truth - the thought of ignorance, saying, "Is there anything for us [to have done] in this matter?" Say, "Indeed, the matter belongs completely to Allah ." They conceal within themselves what they will not reveal to you. They say, "If there was anything we could have done in the matter, some of us would not have been killed right here." Say, "Even if you had been inside your houses, those decreed to be killed would have come out to their death beds." [It was] so that Allah might test what is in your breasts and purify what is in your hearts. And Allah is Knowing of that within the breasts.
Phir uss ney iss ghum kay baad tum per aman nazil farmaya aur tum mein say aik jamat ko aman ki neend aaney lagi. Haan kuch woh log bhi thay kay unhen apni janon ki pari hui thi woh Allah Taalaa kay sath na haq jahalat bhari bad gumani ker rahey thay aur kehtay thay kiya humen bhi kissi cheez ka ikhtiyar hai? Aap keh dijiye kay kaam kul ka kul Allah hi kay ikhtiyar mein hai yeh log apney dilon kay bhed aap ko nahi batatay kehtay hain kay agar humen kuch bhi ikhtiyar hota to yahan qatal na kiye jatay. Aap keh dijiye kay go tum apney gharon mein hotay phir bhi jin ki qismat mein qatal hona tha woh to maqtal ki taraf chal kharay hotay Allah Taalaa ko tumharay seenon ki andar ki cheez ka aazmana aur jo kuch tumharay dilon mein hai uss ko pak kerna tha aur Allah Taalaa seenon kay bhed say aagah hai.
پھر اس غم کے بعد اللہ نے تم پر طمانینت نازل کی ، ایک اونگھ جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی ۔ ( ٥١ ) اور ایک گروہ وہ تھا جسے اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی ، وہ لوگ اللہ کے بارے میں ناحق ایسے گمان کر رہے تھے جو جہالت کے خیالات تھے ، وہ کہہ رہے تھے : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ کہہ دو کہ : اختیار تو تمام تر اللہ کا ہے ۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے ۔ ( ٥٢ ) کہتے ہیں کہ اگر ہمیں بھی کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے ۔ کہہ دو کہ : اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہونا مقدر میں لکھا جاچکا تھا وہ خود باہر نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں تک پہنچ جاتے ۔ اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے ، اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کا میل کچیل دور کردے ۔ ( ٥٣ ) اللہ دلوں کے بھید کو خوب جانتا ہے ۔
پھر تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری ( ف۲۸۲ ) کہ تمہاری ایک جماعت کو گھیرے تھی ( ف۲۸۳ ) اور ایک گروہ کو ( ف۲۸٤ ) اپنی جان کی پڑی تھی ( ف۲۸۵ ) اللہ پر بےجا گمان کرتے تھے ( ف۲۸٦ ) جاہلیت کے سے گمان ، کہتے کیا اس کام میں کچھ ہمارا بھی اختیار ہے تم فرمادو کہ اختیار تو سارا اللہ کا ہے ( ف۲۸۷ ) اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں ( ف۲۸۸ ) جو تم پر ظاہر نہیں کرتے کہتے ہیں ، ہمارا کچھ بس ہوتا ( ف۲۸۹ ) تو ہم یہاں نہ مارے جاتے ، تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں تک نکل آتے ( ف۲۹۰ ) اور اس لئے کہ اللہ تمہارے سینوں کی بات آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے ( ف۲۹۱ ) اسے کھول دے اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے ( ف۲۹۲ )
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کر دی کہ وہ اونگھنے لگے ۔ 112 مگر ایک دوسرا گروہ ، جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی ، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلافِ حق تھے ، یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ’’اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے‘‘؟ ان سے کہو ’’﴿کسی کا کوئی حصہ نہیں﴾ اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘‘ ۔ دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپاتےہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے ، ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ ’’اگر﴿قیادت کے﴾ اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے ‘‘ ۔ ان سے کہہ دو کہ ’’اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے‘‘ ۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آز مالے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسےچھانٹ دے ، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے ۔
پھر اس نے غم کے بعد تم پر ( تسکین کے لئے ) غنودگی کی صورت میں امان اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی اور ایک گروہ کو ( جو منافقوں کا تھا ) صرف اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ اللہ کے ساتھ ناحق گمان کرتے تھے جو ( محض ) جاہلیت کے گمان تھے ، وہ کہتے ہیں: کیا اس کام میں ہمارے لئے بھی کچھ ( اختیار ) ہے؟ فرما دیں کہ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔ کہتے ہیں کہ اگر اس کام میں کچھ ہمارا اختیار ہوتا تو ہم اس جگہ قتل نہ کئے جاتے ۔ فرما دیں: اگر تم اپنے گھروں میں ( بھی ) ہوتے تب بھی جن کا مارا جانا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے ، اور یہ اس لئے ( کیا گیا ) ہے کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو ( وسوسے ) تمہارے دلوں میں ہیں انہیں خوب صاف کر دے ، اور اللہ سینوں کی بات خوب جانتا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :112 یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکر اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹی پڑتی تھیں ۔
تلواروں کے سایہ میں ایمان کی جانچ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس غم و رنج کے وقت جو احسان فرمایا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے ان پر اونگھ ڈال دی ہتھیار ہاتھ میں ہیں دشمن سامنے ہے لیکن دل میں اتنی تسکین ہے کہ آنکھیں اونگھ سے جھکی جا رہی ہیں جو امن و امان کا نشان ہے جیسے سورۃ انفال میں بدر کے واقعہ میں ہے آیت ( اذ یغشیکم النعاس امنتہ منہ ) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن بصورت اونگھ نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں لڑائی کے وقت انکی اونگھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے ، حضرت ابو طلحہ کا بیان ہے کہ احد والے دن مجھے اس زور کی اونگھ آنے لگی کہ بار بار تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی آپ فرماتے ہیں جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو تقریباً ہر شخص کو اسی حالت میں پایا ، ہاں البتہ ایک جماعت وہ بھی تھی جن کے دلوں میں نفاق تھا یہ مارے خوف و دہشت کے ہلکان ہو رہے تھے اور ان کی بدگمانیاں اور برے خیال حد کو پہنچ گئے تھے ، پس اہل ایمان اہل یقین اہل ثبات اہل توکل اور اہل صدق تو یقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد کرے گا اور ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو کر رہے گی لیکن اہل نفاق اہل شک ، بےیقین ، ڈھلمل ایمان والوں کی عجب حالت تھی ان کی جان عذاب میں تھی وہ ہائے وائے کر رہے تھے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسو اس پیدا ہو رہے تھے انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ اب مرے ، وہ جان چکے تھے کہ رسول اور مومن ( نعوذ باللہ ) اب بچ کر نہیں جائیں گے اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ، فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے کہ جہاں ذرا نیچا پانسہ دیکھا تو ناامیدی کی گھٹگھور گھٹاؤں نے انہیں گھیر لیا ان کے برخلاف ایماندار بد سے بد تر حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھتا ہے ۔ ان کے دلوں کے خیالات یہ تھے کہ اگر ہمارا کچھ بھی بس چلتا تو آج کی موت سے بچ جاتے اور چپکے چپکے یوں کہتے بھی تھے حضرت زبیر کا بیان ہے کہ اس سخت خوف کے وقت ہمیں تو اس قدر نیند آنے لگی کہ ہماری ٹھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیر کے یہ الفاظ سنے کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ ہوتے ، اللہ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں مرنے کا وقت نہیں ٹلتا گو تم گھروں میں ہوتے لیکن پھر بھی جن پر یہاں کٹنا لکھا جا چکا ہوتا وہ گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں میدان میں آ کر ڈٹٹ گئے اور اللہ کا لکھا پورا اترا ۔ یہ وقت اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے ارادوں اور تمہارے مخفی بھیدوں کو بےنقاب کرے ، اس آزمائش سے بھلے اور برے نیک اور بد میں تمیز ہو گئی ، اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں اور ارادوں سے پوری طرح واقف ہے اس نے اس ذرا سے واقعہ سے منافقوں کو بےنقاب کر دیا اور مسلمانوں کا بھی ظاہری امتحان ہو گیا ، اب سچے مسلمانوں کی لغزش کا بیان ہو رہا ہے جو انسانی کمزوری کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئی فرماتا ہے شیطان نے یہ لغزش ان سے کرا دی دراصل یہ سب ان کے عمل کا نتیجہ تھا نہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے نہ ان کے قدم اکھڑتے انہیں اللہ تعالیٰ معذور جانتا ہے اور ان سے اس نے درگزر فرما لیا اور ان کی اس خطا کو معاف کر دیا اللہ کا کام ہی درگزر کرنا بخشنا معاف فرمانا حلم اور بربادی برتنا تحمل اور عفو کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان وغیرہ کی اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ولید بن عقبہ نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا آخر تم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان سے اس قدر کیوں بگڑے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا اس سے کہدو کہ میں نے احد والے دن فرار نہیں کیا بدر کے غزوے میں غیر حاضر نہیں رہا اور نہ سنت عمر ترک کی ، ولید نے جا کر حضرت عثمان سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کہہ رہا ہے آیت ( وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ ) 3 ۔ آل عمران:155 ) یعنی احد والے دن کی اس لغزش سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا پھر جس خطا کو اللہ نے معاف کر دیا اس پر عذر لانا کیا ؟ بدر والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری بیوی حضرت رقیہ کی تیمارداری میں مصروف تھا یہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو گئیں چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے پور احصہ دیا اور ظاہر ہے کہ حصہ انہیں ملتا ہے جو موجود ہیں پس حکماً میری موجودگی ثابت ہوا ہے ، رہی سنت عمر اس کی طاقت نہ مجھ میں ہے نہ عبدالرحمن میں ، جاؤ انہیں یہ جواب بھی پہنچا دو ۔