Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
اَللّٰهُ الَّذِىۡ سَخَّرَ لَـكُمُ الۡبَحۡرَ لِتَجۡرِىَ الۡفُلۡكُ فِيۡهِ بِاَمۡرِهٖ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿12﴾
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا کو تابع بنا دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ ۔
الله الذي سخر لكم البحر لتجري الفلك فيه بامره و لتبتغوا من فضله و لعلكم تشكرون
It is Allah who subjected to you the sea so that ships may sail upon it by His command and that you may seek of His bounty; and perhaps you will be grateful.
Alla hi hai jiss ney tumharay liye darya ko taabey bana diya takay uss kay hukum say iss mein kashtiyan chalen aur tum uss ka fazal talash keroaur takay tum shukar baja lao.
اللہ وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے ، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں ، اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو ۔ ( ١ ) اور تاکہ تم شکر ادا کرو ۔
اللہ ہے جس نے تمہارے بس میں دریا کردیا کہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور اس لیے کہ اس کا فضل تلاش کرو ( ف۱۳ ) اور اس لیے کہ حق مانو ( ف۱٤ )
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں 13 اور تم اس کا فضل تلاش کرو 14 اور شکر گزار بنو
اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اُس میں جہاز اور کشتیاں چلیں اور تاکہ تم ( بحری راستوں سے بھی ) اُس کا فضل ( یعنی رزق ) تلاش کر سکو ، اور اس لئے کہ تم شکر گزار ہو جاؤ
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :13 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۸۳ ، جلد سوم ، الروم ، حاشیہ٦۹ ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 55 ، المومن ، حاشیہ ۔ 11 ، الشوریٰ ، حاشیہ 54 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :14 یعنی سمندر میں تجارت ، ماہی گیری ، غواصی ، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔
اللہ تعالیٰ کے ابن آدم پر احسانات اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو ۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج چاند ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ نہریں اور تمہارے فائدے کی بیشمار چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے ، جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ 53؀ۚ ) 16- النحل:53 ) ، یعنی تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کر سکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ابن عباس کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کر لو ۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا یہی جواب پایا پھر فرمایا واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ یہ اثر غریب ہے ۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لئے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو ، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرو ۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے ۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔