Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ اجۡتَـرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَهُمۡ كَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡيَاهُمۡ وَمَمَاتُهُمۡ‌ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿21﴾
کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے کہ ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں ۔
ام حسب الذين اجترحوا السيات ان نجعلهم كالذين امنوا و عملوا الصلحت سواء محياهم و مماتهم ساء ما يحكمون
Or do those who commit evils think We will make them like those who have believed and done righteous deeds - [make them] equal in their life and their death? Evil is that which they judge.
Kiya unn logon ka jo bura kaam kertay hain yeh guman hai kay hum unhen unn logon jaisa kerden gay jo eman laye aur nek kaam kiyey kay unn ka marna jeena yaksan hojaye bura hai woh faisla jo woh ker rahey hain.
جن لوگوں نے برے برے کاموں کا ارتکاب کیا ہے ، کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہم ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہوجائے؟ ( ٦ ) کتنی بری بات ہے جو یہ طے کیے ہوئے ہیں ۔
کیا جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ( ف۳٤ ) یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کی ان کی زندگی اور موت برابر ہوجائے ( ف۳۵ ) کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں ،
کیا 26 وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جاۓ؟ بہت برے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں27 ۔ ع
کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ( کہ ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے ۔ جو دعوٰی ( یہ کفّار ) کر رہے ہیں نہایت برا ہے
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :26 توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :27 یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے ۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو ، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں ۔ یہ بات اگر نہ ہو ، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو تو سرے سے اخلاق میں خوبی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے ۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو ، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے ۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے ۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر اخلاق کی پابندیاں لگائے رہا ۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا ۔ ناجائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا ۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا ۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں ، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا ۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا ، سمیٹتا چلا گیا ۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا ؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے ، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حواشی ۹ ۔ ۱۰ ، النمل ، حاشیہ ۳۵ ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ۹ ، النمل ، حاشیہ ۸٦ ، الروم ، حواشی ٦ تا ۸ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ ، صٓ ، آیت 28 ۔ حاشیہ نمبر 30 )
اصل دین چار چیزیں ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں جیسے اور آیت میں ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہو جائیں ۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت ابو ذر فرماتے ہیں چار چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال حرام حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں اس کے حلال کو حلال اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا ، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آجانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے ۔ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے یہ حدیث غریب ہے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو ۔ طبرانی میں ہے کہ حضرت تمیم داری رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو اللہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا جس سے دل رکا چھوڑ دیا ۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے ۔ حضرت امام مالک اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گذرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کر دیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آگئی پھر اسے گمراہ کیا ۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں ۔ اس کے کانوں پر مہر ہے نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں ۔ اس کے دل پر مہر ہے ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے؟ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٨٦؁ ) 7- الاعراف:186 ) جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ۔