Surah

Information

Surah # 45 | Verses: 37 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 65 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 14, from Madina
وَقَالُوۡا مَا هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنۡيَا نَمُوۡتُ وَنَحۡيَا وَمَا يُهۡلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهۡرُ‌ؕ وَمَا لَهُمۡ بِذٰلِكَ مِنۡ عِلۡمٍ‌ ۚ اِنۡ هُمۡ اِلَّا يَظُنُّوۡنَ‏ ﴿24﴾
کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے ۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے ( دراصل ) انہیں اس کا کچھ علم ہی ۔ نہیں یہ تو صرف ( قیاس اور ) اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں ۔
و قالوا ما هي الا حياتنا الدنيا نموت و نحيا و ما يهلكنا الا الدهر و ما لهم بذلك من علم ان هم الا يظنون
And they say, "There is not but our worldly life; we die and live, and nothing destroys us except time." And they have of that no knowledge; they are only assuming.
Kiya abb bhi tum naseehat nahi pakartay. Unhon ney kaha humari zindagi to sirf duniya ki zindagi hi hai. Hum martay aur jeetay hain aur humen sirf zamana hi maar dalta hai ( dar-asal ) unhen iss ka kuch ilm hi nahi. Yeh to sirf ( qayas aur ) atkal say hi kaam ley rahey hain.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : جو کچھ زندگی ہے بس یہی ہماری دنیوی زندگی ہے ، ( اسی میں ) ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی اور نہیں ، زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے ۔ حالانکہ اس بات کا انہیں کچھ بھی علم نہیں ہے ، بس وہمی اندازے لگاتے ہیں ۔
اور بولے ( ف٤۲ ) وہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی ( ف٤۳ ) مرتے ہیں اور جیتے ہیں ( ف٤٤ ) اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ ( ف٤۵ ) اور انہیں اس کا علم نہیں ( ف٤٦ ) وہ تو نرے گمان دوڑاتے ہیں ( ف٤۷ )
یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو ۔ درحقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے ۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں34 ۔
اور وہ کہتے ہیں: ہماری دنیوی زندگی کے سوا ( اور ) کچھ نہیں ہے ہم ( بس ) یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے ( حالات و واقعات کے ) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا ( گویا خدا اور آخرت کا مکمل انکار کرتے ہیں ) ، اور انہیں اس ( حقیقت ) کا کچھ بھی علم نہیں ہے ، وہ صرف خیال و گمان سے کام لے رہے ہیں
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :34 یعنی کوئی ذریعہ علم ایسا نہیں ہے جس سے ان کو بتحقیق یہ معلوم ہو گیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لیے کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ، اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہو گئی ہو کہ انسان کی روح کسی خدا کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہو جاتا ہے ۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں ۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ، لیکن یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ اسی طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آدمی کی روح خدا کے حکم سے نکالی نہیں جاتی ہے بلکہ وہ محض اس طرح مر کر ختم ہو جاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کیا صورت پیش آتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے ، اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے ، تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کے احتمال کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخرت کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں ۔ کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلے کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں؟ چونکہ اس کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے قبض روح ہو ، اس لیے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کر دیتے ہیں ۔
زمانے کو گالی مت دو دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے کچھ جیتے ہیں کچھ مرتے ہیں قیامت کوئی چیز نہیں فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کر سکتے ۔ ابو داؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو ( یعنی زمانے کو ) گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے دہر ( زمانہ ) کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے ۔ ابن جریر نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا وہ زمانے کو برا کہتے تھے پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے میں زمانہ ہوں دن رات میرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور حدیث میں ہے میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا مجھے میرے بندے گالیاں دیں وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں ۔ امام شافعی اور ابو عبیدہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے اس کا زمانے کا گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ عزاسمہ ہے پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لئے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور لوگوں کو اس سے روک دیا یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے امام ابن حزم وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ دہر اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے واللہ اعلم پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کر دیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہدیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا پیدا کیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کر دیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے تو جو ابتدا پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہو گا ؟ بلکہ عقلًا ہدایت ( واضح طور پر ) کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے ، پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا ۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ ۔ یہ تو دار عمل ہے دار جزا قیامت کا دن ہے یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لئے تیاریاں کر سکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں ۔