Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى‌ؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿3﴾
ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لئے پیدا کیا ہے اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں ۔
ما خلقنا السموت و الارض و ما بينهما الا بالحق و اجل مسمى و الذين كفروا عما انذروا معرضون
We did not create the heavens and earth and what is between them except in truth and [for] a specified term. But those who disbelieve, from that of which they are warned, are turning away.
Hum ney aasmano aur zamin aur inn dono kay darmiyan ki tamam cheezon ko behtreen tadbeer kay sath hi aik muddat moayyen kay liye peda kiya hai aur kafir log jiss cheez say daraye jatay hain mun mor letay hain.
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کسی برحق مقصد کے بغیر اور کسی متعین میعاد کے بغیر پیدا نہیں کردیا ۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے ۔
ہم نے نہ بنائے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق کے ساتھ ( ف۳ ) اور ایک مقرر میعاد پر ( ف٤ ) اور کافر اس چیز سے کہ ڈرائے گئے ( ف۵ ) منہ پھیرے ہیں ( ف٦ )
ہم نے زمین اور آسمانوں کو ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق ، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے 2 ۔ مگر یہ کافر لوگ اس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے 3 ۔
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور اس ( مخلوقات ) کو جو ان کے درمیان ہے پیدا نہیں کیا مگر حکمت اور مقررہ مدّت ( کے تعیّن ) کے ساتھ ، اور جنہوں نے کفر کیا ہے انہیں جس چیز سے ڈرایا گیا اسی سے رُوگردانی کرنے والے ہیں
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :2 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ ٤٦ ، جل دوم ، یونس ، حاشیہ ۱۱ ، ابراہیم ، حاشیہ۲۳ ، الحجر ، حاشیہ٤۷ ، النحل ، حاشہ٦ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۱۵ تا ۱۷ ، المومنون ، حواشی ۱۰۲ ، العنکبوت ، حواشی۷۵ ۔ ۷٦ جلد چہارم ، تفسیر سورہ لقمان ، حاشیہ 51 ۔ الدخان ، حاشیہ 34 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 28 ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :3 یعنی واقعی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام کائنات ایک بے مقصد کھلونا نہیں بلکہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے جس میں لازماً نیک و بد اور ظالم و مظلوم کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہونا ہے ، اور کائنات کا موجودہ نظام دائمی و ابدی نہیں ہے بلکہ اسکی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اسے لازماً درہم برہم ہو جانا ہے ، اور خدا کی عدالت کے لیے بھی ایک وقت طے شدہ ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے ، لیکن جن لوگوں نے خدا کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ان حقائق سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کچھ فکر نہیں ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان حقیقتوں سے خبردار کر کے خدا کے رسول نے ان کے ساتھ کوئی برائی کی ہے ، حالانکہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی بھلائی ہے کہ اس نے محاسبے اور باز پرس کا وقت آنے سے پہلے ان کو نہ صرف یہ بتا دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے ، بلکہ یہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ اس وقت ان سے کن امور کی باز پرس ہو گی تاکہ وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں ۔ آگے کی تقریر سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ انسان کی سب سے بڑی بنیادی غلطی وہ ہے جو وہ خدا کے متعلق اپنے عقیدے کے تعین میں کرتا ہے ۔ اس معاملہ میں سہل انگاری سے کام لے کر کسی گہرے اور سنجیدہ فکر و تحقیق کے بغیر ایک سرسری یا سنا سنایا عقیدہ بنا لینا ایسی عظیم حماقت ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے پورے رویے کو ، اور ابدلآباد تک کے لیے اس کے انجام کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے ۔ لیکن جس وجہ سے آدمی اس خطر ناک سہل انگاری میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھ لیتا ہے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ خدا کے بارے میں جو عقیدہ بھی میں اختیار کرلوں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یا تو مرنے کے بعد سرے سے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں مجھے کسی باز پرس سے سابقہ پیش آئے ، یا اگر ایسی کوئی زندگی ہو اور وہاں باز پرس بھی ہو تو جن ہستیوں کا دامن میں نے تھام رکھا ہے وہ مجھے انجام بد سے بچا لیں گی ۔ یہی احساس ذمہ داری کا فقدان آدمی کو مذہبی عقیدے کے انتخاب میں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے اور اسی بنا پر وہ بڑی بے فکری کے ساتھ دہریت سے لے کر شرک کی انتہائی نامعقول صورتوں تک طرح طرح کے لغو عقیدے خود گھڑتا ہے یا دوسروں کے گھڑے ہوئے عقیدے قبول کر لیتا ہے ۔