Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّغُلَّ‌ؕ وَمَنۡ يَّغۡلُلۡ يَاۡتِ بِمَا غَلَّ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿161﴾
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا ,پھر ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ,اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے ۔
و ما كان لنبي ان يغل و من يغلل يات بما غل يوم القيمة ثم توفى كل نفس ما كسبت و هم لا يظلمون
It is not [attributable] to any prophet that he would act unfaithfully [in regard to war booty]. And whoever betrays, [taking unlawfully], will come with what he took on the Day of Resurrection. Then will every soul be [fully] compensated for what it earned, and they will not be wronged.
Na mumkin hai kay nabi say khayanat hojaye her khayanat kerney wala khayanat ko liye huye qayamat kay din hazir hoga phir her shaks apney aemaal ka poora poora badla diya jayega aur woh zulm na kiye jayen gay.
اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے ۔ ( ٥٥ ) اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی ، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا ۔
اور کسی نبی پر یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ وہ کچھ چھپا رکھے ( ف۳۰۷ ) اور جو چھپا رکھے وہ قیامت کے دن اپنی چھپائی چیز لے کر آئے گا پھر ہر جان کو ان کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا ،
کسی نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کر جائے ۔ ۔ ۔ ۔ 114 اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا ، پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا ۔
اور کسی نبی کی نسبت یہ گمان ہی ممکن نہیں کہ وہ کچھ چھپائے گا ، اور جو کوئی ( کسی کا حق ) چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے وہ لانا پڑے گا جو اس نے چھپایا تھا ، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :114 جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کےلیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن کا لشکر لوٹا جارہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مل جائے جو اسے لوٹ رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں ۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے ان لوگوں کو بلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے ۔ اس پر حضور نے فرمایا بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم ۔ ”اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا ، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصہ نہیں دیں گے ۔ “ اس آیت کا اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہوگا ۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت ، امانت اور انصاف کے سوا کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے؟