Surah

Information

Surah # 46 | Verses: 35 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 66 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 10, 15, 35, from Madina
وَاِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَيۡكَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ يَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ‌ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡهُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا‌ۚ فَلَمَّا قُضِىَ وَلَّوۡا اِلٰى قَوۡمِهِمۡ مُّنۡذِرِيۡنَ‏ ﴿29﴾
اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ، پس جب ( نبی کے ) پاس پہنچ گئے تو ( ایک دوسرے سے ) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے ۔
و اذ صرفنا اليك نفرا من الجن يستمعون القران فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضي و لوا الى قومهم منذرين
And [mention, O Muhammad], when We directed to you a few of the jinn, listening to the Qur'an. And when they attended it, they said, "Listen quietly." And when it was concluded, they went back to their people as warners.
Aur yaad kero! Jabkay hum ney jinno ki aik jammat ko teri taraf mutawajja kiya kay woh quran sunen pus jab ( nabi kay ) pass phonch gaye to ( aik doosray say ) kehney lagay khamosh hojao phir jab parh ker khatam hogaya to apni qom ko khabardar kerney kay liye wapis lot gaye.
اور ( اے پیغمبر ) یاد کرو جب ہم نے جنات میں سے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ۔ ( ١٥ ) چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے ( ایک دوسرے سے ) کہا کہ : خاموش ہوجاؤ ، پھر جب وہ پڑھا جاچکا تو وہ اپنی قوم کے پاس انہیں خبردار کرتے ہوئے واپس پہنچے ۔
اور جبکہ ہم نے تمہاری طرف کتنے جن پھیرے ( ف۷٦ ) کان لگا کر قرآن سنتے ، پھر جب وہاں حاضر ہوئے آپس میں بولے خاموش رہو ( ف۷۷ ) پھر جب پڑھنا ہوچکا اپنی قوم کی طرف ڈر سناتے پلٹے ( ف۷۸ )
۔ ( اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے ) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں 33 ۔ جب وہ اس جگہ پہنچے ( جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ۔
اور ( اے حبیب! ) جب ہم نے جنّات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا جو قرآن غور سے سنتے تھے ۔ پھر جب وہ وہاں ( یعنی بارگاہِ نبوت میں ) حاضر ہوئے تو انہوں نے ( آپس میں ) کہا: خاموش رہو ، پھر جب ( پڑھنا ) ختم ہو گیا تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈر سنانے والے ( یعنی داعی الی الحق ) بن کر واپس گئے
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :33 اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت زبیر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری ، سعید بن حبیر ، زر بن حبیش ، مجاہد ، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے ، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا ۔ اور ابن اسحاق ، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے ۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا ۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا ۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے ، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی ۔ یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا ، یا تو الزیمہ تھا ، یا اسیل الکبیر ، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں ، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں ۔
طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الہٰی سنا ، شیطان بوکھلایا مسند امام احمد میں حضرت زبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے ابن عباس کی روایت میں ہے کہ یہ جنات ( نصیبین ) کے تھے تعداد میں سات تھے کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا نہ آپ نے انہیں دیکھا آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیاطین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہوگئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہوگئے تھے ۔ شیاطین نے آکر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے اسکے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فورا ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں ۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو سورہ جن میں دی ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جنات وحی الہٰی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے ۔ پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آکر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہوا ۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ حسن بصری کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھی جب آپ پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا ۔ سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے ۔ حضرت حسن نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے ( اللھم الیک اشکوا ضعف قوتی وقلتہ حیلتی وھوانی علی الناس یا ارحم الراحمین انت الرحم الراحمین وانت رب المستضعفین وانت ربی الی من تکلنی الی عدو بعید یتجھمنی ام الی صدیق قریب ملکتہ امری ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی غیر ان عافیتک اوسع لی اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان ینزل بی غضبک او یحل بی سخطک ولک العتبیٰ حتی ترضیٰ ولا حول ولا قوۃ الا بک ) یعنی اپنی کمزوری اور بےسروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لئے بہت ہی راحت رساں ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آجائے ، مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے ۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ نے نخلہ میں رات گذاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ( نصیبین ) کے جنوں نے آپ کو سنا یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لئے کہ جنات کا کلام اللہ شریف سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کے زمانے کا ہے جیسے کہ ابن عباس کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ کا طائف جانا اپنے چچا ابو طالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے واللہ اعلم ۔ ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زویعہ ہے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی حضرت ابن عباس کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بےخبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کر واپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آرہے ہیں انشاء اللہ ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبدالرحمن نے حضرت مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تھا ؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد حضرت ابن مسعود نے کہا ہے ان کی آگاہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے دی تھی تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو واللہ اعلم ۔ امام حافظ بیہقی فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ تو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لئے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ کے پاس آئے اور آپ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا جیسے کہ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے ۔ اس کی روایتیں سنئے ۔ حضرت علقمہ حضرت ابن مسعود سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر بار بار یہی خیال گذرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آرہے ہیں پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا چنانچہ آپ ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے ۔ شعبی کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی ، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا پس اے مسلمانو! ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں دوسری روایت میں ہے کہ اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گذاری ۔ ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے ۔ پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا بس یہیں بیٹھے رہو پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہوگئی کہ میں تو آپ کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے وہ باقی کے کہاں ہیں ؟ میں نے کہا وہ یہ ہیں پس آپ نے انہیں ہڈی اور لید دی ۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجا کرنے سے منع فرما دیا اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت آکر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم یہاں سے باہر نکلتے تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں ، پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی ؟ میں نے کہا ہاں لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ نے فرمایا یہ ( نصیبین ) کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید گوبر دیا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ آپ نے فرمایا ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلا سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجا نہ کرے اس روایت کی دوسری سند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں ۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے اور روایت میں ہے کہ جب جنات کا اژدھام ہو گیا تو ان کے سرداران نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں ۔ آپ فرماتے ہیں جنات والی رات میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے اس سے وضو کراؤ چنانچہ اپنے وضو کیا اور فرمایا یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے ، جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے ۔ یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ میں نے یہ سن کر کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے آپ نے کہا کس کو ؟ میں نے کہا ابو بکر کو ۔ اس پر آپ خاموش ہوگئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی ۔ میں نے وہی سوال کیا آپ نے وہی جواب دیا ۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ نے پوچھا کسے ؟ میں نے کہا عمر کو ( رضی اللہ عنہ ) اس پر آپ خاموش ہوگئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب کا نام پیش کیا تو آپ فرمانے لگے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا ۔ وہاں بھی آپ کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لئے کہ آپ کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہوگئیں اور سورہ ( اذا جاء ) الخ ، اتر چکی جس میں آپ کو خبر انتقال دی گئی تھی ۔ جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاء اللہ واللہ اعلم ۔ مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی ابن مسعود اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آگیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس حد سے باہر آجاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀ ) 46- الأحقاف:29 ) ، میں ہے نینویٰ کی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا ؟ اس پر سب خاموش ہوگئے دوبارہ پوچھا پھر خاموشی رہی تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص حضرت ابن مسعود تیار ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے ۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ آگے بڑھ گئے ۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آرہے ہیں تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ شوروغل کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا جس میں یہ مختلف تھے ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا یہ واقعات صاف ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدًا جا کر جنات کو قرآن سنایا انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے ۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ کو نہ معلوم تھا نہ آپ نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا جیسے کہ ابن عباس فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمدًا تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا ۔ حضرت ابن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے حضرت ابن مسعود کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ کے ساتھ ابن مسعود اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے ۔ واللہ اعلم ، یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ ( نصیبین ) کے تھے ۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد ابن مسعود کے سوا اور صحابہ ہیں جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں ۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی واللہ اعلم ۔ بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لئے آپ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ پانی کی ڈولچی لئے ہوئے جایا کرتے تھے ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے آپ نے پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ میں ابو ہریرہ ہوں فرمایا میرے استنجے کے لئے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ کے پاس رکھ دئیے جب آپ فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ کے پیچھے چلا اور پوچھا حضور کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا ؟ آپ نے جواب دیا میرے پاس ( نصیبین ) کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گذریں اسے طعام پائیں ۔ صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپکے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے ۔ ابن عباس سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے ( نصیبین ) کے رہنے والے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا مجاہد کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے ( نصیبین ) کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کو اہل حران سے کہا اور چار کو اہل ( نصیبین ) سے ان کے نام یہ ہیں ۔ حسی ، حسا ، منسی ، ساحر ، ناصر ، الاردوبیان ، الاحتم ۔ ابو حمزہ شمالی فرماتے ہیں انہیں بنو شیصیان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے ابن مسعود فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام ردیعہ تھا اصل نخلہ سے آئے تھے ۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ ۔ اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عمومًا اسی طرح نکلتی ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک حسین شخص گذرا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا جانا ذرا اسے لے آنا جب وہ آگیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گذرا ۔ حضرت عمر نے فرمایا اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا ، اس نے کہا بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے ۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا تو وہ آگیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور انکے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی؟ حضرت عمر فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پُر زور آواز آئی ایسی کہ اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا اے جلیح نجات دینے والا امر آچکا ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے آیت ( لا الہ الا اللہ ) کی منادی کر رہا ہے ۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گذرے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں ۔ اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آبھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا واللہ اعلم ، امام بیہقی نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے ، ( وللہ الحمد المنہ ) ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی اگلے سال آپ نے پھر پوچھا تو حضرت براء نے کہا سواد بن قارب کون ہے ؟ اس سے کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو حضرت سواد بن قارب آگئے حضرت عمر نے ان سے کہا سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ آپ نے فرمایا سنئے میں ہند گیا ہوا تھا میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فورا مکے کی طرف کوچ کر ۔ سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے مجھے پھر غنودگی سی آگئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا اے سواد بن قارب اللہ عزوجل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر ۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر ۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فورا تیار ہو جانے پر تعجب آرہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لئے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو ۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتًہ اسلام کا ولولہ اٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال ۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سواد بن قارب کو مرحبا ہو آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لئے اور کس کے کہنے سننے سے آرہے ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟ آپ نے فرمایا سواد شوق سے کہو تو حضرت سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب میں اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ اللہ کے امانتدار رسول ہیں آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد اے تمام رسولوں سے بہتر رسول جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا ؟ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے سواد تم نے فلاح پالی ۔ حضرت عمر نے یہ واقعہ سن کر پوچھا کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہا جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اسکے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی ۔ اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوا تھا ۔ حضرت عمرو بن غیلان ثقفی ، حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوا تھا اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ بھی تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے میں نے کہا ذرا واقعہ تو سنائیے ۔ فرمایا صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا ابن مسعود فرمایا تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے ؟ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں لے گیا فرمایا اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا میں ساتھ ہو لیا آپ حضرت ام سلمہ کے حجرے میں گئے میں باہر ہی ٹھہر گیا تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ ۔ میں واپس مسجد میں آگیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی تو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا جب میں اپنی جگہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے کہا جو اللہ نے چاہا ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے پھر آپ چلے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا تھوڑی دیر میں بقیع غرقد چا پہنچے پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گذر چکا ہے اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ۔ دلائل نبوت میں حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں کہ مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا ؟ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے مدینہ کی پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے اب نیزوں کے برابر لانبے لانبے قد کے آدمی نیچے نیچے کپڑے ہوئے آنے شروع ہوئے ہیں ۔ میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا پھر اور واقعہ مثل حدیث ابن مسعود کے بیان کیا ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے ، ابراہیم کہتے ہیں میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے ؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا اللہ کی قسم میں بیٹھا ہوا تھا جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں ان میں سے ایک نے پوچھا عمرو کو کس نے دفن کیا ؟ ہم نے کہا کون عمرو؟ اس نے کہا تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں میں نے دفن کیا ہے کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم فاروق اعظم کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اس عورت نے سچ کہا ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ دفن کفن کرنے والے حضرت صفوان بن معطل تھے کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کے لئے وفد بن کر آئے تھے ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہوا ۔ ابو نعیم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان ذوالنورین کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیرا لمومنین میں ایک جنگل میں تھا میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آرہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی ، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا اب میں چلا جا رہا تھا جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی ۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو قیس میں سے تھے ۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لئے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وحی الہٰی سنی تھی ۔ حضرت عثمان اس قصے کو سن کر فرمانے لگے اے شخص اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے ۔ اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کے ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہوگئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو ۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے سورہ رحمٰن کی تلاوت کی پھر فرمایا کیا بات ہے ؟ جو تم سب خاموش ہی رہے تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے جب بھی میرے منہ سے انہوں نے آیت ( فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀ ) 55- الرحمن:13 ) سنی انہوں نے جواب میں کہا ( ولا بشیءٍ من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد ) پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی ( قضی ) کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 10؀ ) 62- الجمعة:10 ) اور آیت ( فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 12؀ ) 41- فصلت:12 ) اور آیت ( فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ ٢٠٠؁ ) 2- البقرة:200 ) وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لئے واپس ان کی طرف چلے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کرلیں ۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے یہ بات بلاشک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں ۔ فرمان باری ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ Ċ۝ ) 21- الأنبياء:7 ) ، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کر تے تھے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا 20؀ۧ ) 25- الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت قرآن میں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ 27؀ ) 29- العنكبوت:27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ ہی کے خاندان اور آپ ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں ۔ لیکن سورہ انعام کی آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَ ١٣٠؁ ) 6- الانعام:130 ) یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے جیسے فرمان ( يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ 22۝ۚ ) 55- الرحمن:22 ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے ۔