Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ‏ ﴿1﴾
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیئے ۔
الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله اضل اعمالهم
Those who disbelieve and avert [people] from the way of Allah - He will waste their deeds.
Jinn logon ney kufur kiya aur Allah ki raah say roka Allah ney unn kay aemaal barbad ker diye.
جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا ہے اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا ہے ، اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے ہیں ۔ ( ١ )
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ( ف۲ ) اللہ نے ان کے عمل برباد کیے ( ف۳ )
جن لوگوں نے کفر کیا1 اور اللہ کے راستے سے روکا2 ، اللہ نے ان کے اعمال کو رائگاں کر دیا3 ۔
جن لوگوں نے کفر کیا اور ( دوسروں کو ) اﷲ کی راہ سے روکا ( تو ) اﷲ نے ان کے اعمال ( اخروی اجر کے لحاظ سے ) برباد کر دیئے
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :1 1 ۔ یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش فرما رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :2 2 ۔ اصل میں صَدُّوْا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں ۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی ، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پر آنے سے باز رہے ، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا ۔ دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے ۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمان لانا مشکل ہو جائے ۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں ۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے ، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے ، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے ، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :3 3 ۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ۔ گمراہ کر دیا ۔ ضائع کر دیا ۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں ۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں ۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے ، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہوگی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں ، مثلا خانۂ کعبہ کی نگہبانی ، حاجیوں کی خدمت ، مہمانوں کی ضیافت ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا ۔ اللہ تعالی نے ان سب کو ضائع کر دیا ۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا ، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں ، اللہ نے ان کو رائیگاں کر دیا ۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں ۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں ، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت وبرباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے ۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے ۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے ۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے ۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا ( یھدیکم اللہ ویصلح بالکم ) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کر دینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے ۔