Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿37﴾
۔ ( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرمائی بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔
فتلقى ادم من ربه كلمت فتاب عليه انه هو التواب الرحيم
Then Adam received from his Lord [some] words, and He accepted his repentance. Indeed, it is He who is the Accepting of repentance, the Merciful.
( hazrat ) aadam ( alh-e-salam ) ney apney rab say chand baaten seekh lin aur Allah Taalaa ney unn ki tauba qabool farmaee be-shak wohi tauba qabool kerney wala aur reham kerney wala hai.
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے ( توبہ کے ) کچھ الفاظ سیکھ لیے ( جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی ) چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی ( ٣٦ ) بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ، بڑا مہربان ہے
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی ( ف٦۷ ) بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔
اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی 51 ، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا ، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ 52
پھر آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے ( عاجزی اور معافی کے ) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی ، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :51 یعنی آدم کو جب اپنے قصُور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا ، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے رب سے اپنی خطا معاف کرائیں ، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دُعا کر سکتے ۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے ۔ توبہ کے اصل معنی رُجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں ۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا ، طریقِ بندگی کی طرف پلٹ آیا ۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجّہ ہو گیا ، پھر سے نظرِ عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :52 قرآن اس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں ، اور وہ بہر حال انسان کو بُھگتنے ہی ہوں گے ۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے ، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گار انہ زندگی میں مبتلا ہو گیا ، اس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اصلاح کرنا چاہے ، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں ، جو کچھ تو کر چکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے ۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بَھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے ۔ تمہیں جس بَھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بَھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے ، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے ۔ البتہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہمرشتہ ہے ۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دُھند استعمال نہیں کرتا ۔ جب کسی بَھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بَھلائی کی تھی ۔ اور جس بَھلائی کو رَد کر دیتا ہے ، اسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بَھلے کام کی سی تھی ، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا ۔ اسی طرح وہ سزا اس قصُور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکابِ جُرم کی خواہش موجود ہو ۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصُور پر دیتا ہے ، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو ۔ بڑے سے بڑے مجرم ، کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف ، اپنی نافرمانی پر نادم ، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی رَوش اختیار کر نے کے لیے تیار ہو ۔
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔ آیت ( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:23 ) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے ۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے ۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے ۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے ۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں ۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا ( اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا ) 25 ۔ الفرقان:71 ) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم ، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا ۔