Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَوَلَمَّاۤ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَيۡهَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰى هٰذَا‌ؕ قُلۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِكُمۡ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿165﴾
۔ ( کیا بات ہے ) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے ، تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے ، بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
او لما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها قلتم انى هذا قل هو من عند انفسكم ان الله على كل شيء قدير
Why [is it that] when a [single] disaster struck you [on the day of Uhud], although you had struck [the enemy in the battle of Badr] with one twice as great, you said, "From where is this?" Say, "It is from yourselves." Indeed, Allah is over all things competent.
( kiya baat hai kay ) kay jab tumhen aik aisi takleef phonchi kay tum iss jaisi do chand phonch chukay to yeh kehney lagay kay yeh kahan say aagaee? Aap keh dijiye kay yeh khud tumhari taraf say hai be-shak Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
جب تمہیں ایک ایسی مصیبت پہنچی جس سے دگنی تم ( دشمن کو ) پہنچا چکے تھے ( ٥٦ ) تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ کہہ دو کہ : یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے ( ف۳۱۸ ) کہ اس سے دونی تم پہنچا چکے ہو ( ف۳۱۹ ) تو کہنے لگو کہ یہ کہاں سے آئی ( ف۳۲۰ ) تم فرمادو کہ وہ تمہاری ہی طرف سے آئی ( ف۳۲۱ ) بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ،
اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آپڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ 115 حالانکہ ﴿جنگ بدر میں﴾ اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں﴿فریق مخالف پر ﴾ پڑ چکی ہے ۔ 116 اے نبی ! ان سے کہو ، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے ، 117 اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ 118
کیا جب تمہیں ایک مصیبت آپہنچی حالانکہ تم اس سے دو چند ( دشمن کو ) پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آپڑی؟ فرما دیں: یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے ہے بیشک اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :115 اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے ، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے ۔ اس لیے جب احد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا ؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے ، اس کا وعدہ نصرت ہمارے ساتھ تھا ، اس کا رسول خود میدان جنگ میں موجود تھا ، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے؟ اور شکست بھی ان سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے؟ یہ آیات اسی حیرانی کو دور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :116 جنگ احد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے ۔ بخلاف اس کے جنگ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :117 یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے ، حکم کی خلاف ورزی کی ، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے ، آپس میں نزاع و اختلاف کیا ، پھر کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :118 یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔
غزوات سچے مسلمان اور منافق کو بےنقاب کرنے کا ذریعہ بھی تھے یہاں جس مصیبت کا بیان ہو رہا ہے یہ احد کی مصیبت ہے جس میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے تو مسلمان کہنے لگے کہ یہ مصیبت کیسے آگئی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا بیان ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں نے فدیہ لے کر جن کفار کو چھوڑ دیا تھا اس کی سزا میں اگلے سال ان میں سے ستر مسلمان شہید کئے گئے اور صحابہ میں افراتفری پڑ گئی ، حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے آپ کے سر مبارک پر خود تھا وہ بھی ٹوٹا اور چہرہ مبارک لہولہان ہو گیا ، اس کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ، مسند احمد بن حنبل ) حضرت علی سے مروی ہے کہ جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم کا کفار کو قیدی بنا کر پکڑ لینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اب انہیں دو باتوں میں سے ایک کے اختیار کر لینے کا حکم دیجئے یا تو یہ کہ ان قیدیوں کو مار ڈالیں یا یہ کہ ان سے فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں مگر پھر ان مسلمانوں سے اتنی ہی تعداد شہید ہو گی حضور علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے دونوں باتیں پیش کیں تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ ہمارے قبائل کے ہیں ہمارے رشتے دار بھائی ہیں ہم کیوں نہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں اور اس مال سے ہم طاقت قوت حاصل کر کے اپنے دوسرے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور پھر جو ہم میں سے اتنے ہی آدمی شہید ہوں گے تو اس میں ہماری کیا برائی ہے ، چنانچہ جرمانہ وصول کر کے ستر قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ٹھیک ستر ہی کی تعداد مسلمانوں کی اس کے بعد غزوہ احد میں شہید ہوئی ( ترمذی نسائی ) پس ایک مطلب تو یہ ہوا کہ خود تمہاری طرف سے یہ سب ہوا یعنی تم نے بدر کے قیدیوں کو زندہ چھوڑنا اور ان سے جرمانہ جنگ وصول کرنا اس شرط پر منظور کیا تھا کہ تمہارے بھی اتنے ہی آدمی شہید ہوں وہ شہید ہوئے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی اس باعث تمہیں یہ نقصان پہنچا تیر اندازوں کو رسول کرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں لیکن وہ ہٹ گئے ، اللہ تعالیٰ ہر چیز قادر ہے جو چاہے کرے جو ارادہ ہو حکم دے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے ۔ دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ کے دن جو نقصان تمہیں پہنچا کہ تم دشمنوں کے مقابلے سے بھاگ کھڑے ہوئے تم میں سے بعض لوگ شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے تھا اس کی حکمت اس کی مقتضی تھی ، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ثابت قدم غیر متزلزل ایمان والے صابر بندے بھی معلوم ہو جائیں اور منافقین کا حال بھی کھل جائے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی جو راستے میں ہی لوٹ گئے ایک مسلمان نے انہیں سمجھایا بھی کہ آؤ ، اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کم از کم ان حملہ اوروں کو تو ہٹاؤ لیکن انہوں نے ٹال دیا کہ ہم تو فنون جنگ سے بےخبر ہیں اگر جانتے ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ ، یہ بھی مدافعت میں تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ تو رہتے جس سے مسلمانوں کی گنتی زیادہ معلوم ہوتی ، یا دعائیں کرتے رہتے یا تیاریاں ہی کرتے ، ان کے جواب کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم سچ مچ دشمنوں سے لڑو گے تو تو ہم بھی تمہارا ساتھ دیتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ لڑائی ہونے کی ہی نہیں سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ایک ہزار آدمی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد کی جانب بڑھے آدھے راستے میں عبداللہ ابی بن سلول بگڑ بیٹھا اور کہنے لگا اوروں کی مان لی اور مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور میری نہ مانی اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس فائدے کو نظر انداز رکھ کر اپنی جانیں دیں؟ لوگوں کیوں جانیں کھو رہے ہو جس قدر نفاق اور شک و شبہ والے لوگ تھے اس کی آواز پر لگ گئے اور تہائی لشکر لے کر یہ پلید واپس لوٹ گیا ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام بنو سلمہ کے بھائی ہر چند انہیں سمجھاتے رہے کہ اے میری قوم اپنے نبی کو اپنی قوم کو رسوا نہ کروا انہیں دشمنوں کے سامنے چھوڑ کر پیٹھ نہ پھیرو لیکن انہوں نے بہانہ بنا دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لڑائی ہونے ہی کی نہیں جب یہ بیچارے عاجز آگئے تو فرمانے لگے جاؤ تمہیں اللہ غارت کرے اللہ کے دشمنو! تمہاری کوئی حاجت نہیں اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مددگار ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت ہی نزدیک تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے احوال مختلف ہیں کبھی وہ کفر سے قریب جاتا ہے اور کبھی ایمان کے نزدیک ہو جاتا ہے ، پھر فرمایا یہ اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ، جیسے ان کا یہی کہنا کہ اگر ہم جنگ جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ، حالانکہ انہیں یقینًا معلوم تھا کہ مشرکین دور دراز سے چڑھائی کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کی ٹھان کر آئے ہیں وہ بڑے جلے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سردار بدر والے دن میدان میں رہ گئے تھے اور ان کے اشراف قتل کر دئیے گئے تھے تو اب وہ ان ضعیف مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں اور یقینا جنگ عظیم برپا ہونے والی ہے ، پس جناب باری فرماتا ہے ان کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کا مجھے بخوبی علم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کے بارے میں کہتے ہیں اگر یہ ہمارا مشورہ مانتے یہیں بیٹھے رہتے اور جنگ میں شرکت نہ کرتے تو ہرگز نہ مارے جاتے ، اس کے جواب میں جناب باری جل و علا کا ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہے اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ بیٹھ رہنے اور میدان جنگ میں نہ نکلنے سے انسان قتل و موت سے بچ جاتا ہے تو چاہئے کہ تم مروہی نہیں اس لئے کہ تم تو گھروں میں بیٹھے ہو لیکن ظاہر ہے کہ ایک روز تم بھی چل بسو گے چاہے تم مضبوط برجوں میں پناہ گزین ہو جاؤ پس ہم تو تمہیں تب سچا مانیں کہ تم موت کو اپنی جانوں سے ٹال دو ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔