Surah

Information

Surah # 47 | Verses: 38 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 95 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 13, revealed during Muhammad's Hijrah
فَلَا تَهِنُوۡا وَتَدۡعُوۡۤا اِلَى السَّلۡمِ‌ۖ وَاَنۡـتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ‌ۖ وَاللّٰهُ مَعَكُمۡ وَلَنۡ يَّتِـرَكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ‏ ﴿35﴾
پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کر دے ۔
فلا تهنوا و تدعوا الى السلم و انتم الاعلون و الله معكم و لن يتركم اعمالكم
So do not weaken and call for peace while you are superior; and Allah is with you and will never deprive you of [the reward of] your deeds.
Pus tum bodhay bann ker sulah ki darkhuast per na utar aao jabkay tum hi buland-o-ghalib rahop gay aur Allah tumharay sath hai na-mumkin hai kay woh tumharay aemaal zaya ker dey.
لہذا ( اے مسلمانو ) تم کمزور پڑ کر صلح کی دعوت نہ دو ۔ ( ١٣ ) تم ہی سربلند رہو گے ، اللہ تمہارے ساتھ ہے ، اور وہ تمہارے اعمال کو ہرگز برباد نہیں کرے گا ۔ ( ١٤ )
تو تم سستی نہ کرو ( ف۸۹ ) اور آپ صلح کی طرف نہ بلاؤ ( ف۹۰ ) اور تم ہی غالب آؤ گے ، اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال میں تمہیں نقصان نہ دے گا ( ف۹۱ )
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو 41 ۔ تم ہی غالب رہنے والے ہو ۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔
۔ ( اے مومنو! ) پس تم ہمت نہ ہارو اور ان ( متحارب کافروں ) سے صلح کی درخواست نہ کرو ( کہیں تمہاری کمزوری ظاہر نہ ہو ) ، اور تم ہی غالب رہو گے ، اور اﷲ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال ( کا ثواب ) ہرگز کم نہ کرے گا
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :41 یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا ۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو ، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں ۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے ، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں ۔