Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
لِّيَـغۡفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكَ وَيَهۡدِيَكَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًا ۙ‏ ﴿2﴾
تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے او جو پیچھے سب کو اللہ تعالٰی معاف فرمائے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راہ چلائے ۔
ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك و ما تاخر و يتم نعمته عليك و يهديك صراطا مستقيما
That Allah may forgive for you what preceded of your sin and what will follow and complete His favor upon you and guide you to a straight path
Takay jo kuch teray gunah aagay huye aur jo peechay sab ko Allah Taalaa maaf farmaye, aur tujh per apna ehsan poora ker day aur tujhay seedhi raah chalaye.
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کردے ، ( ٢ ) اور تاکہ اپنی نعمت تم پر مکمل کردے ، اور تمہیں سیدھے راستے پر لے چلے ، ( ٣ )
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے ( ف۳ ) اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردے ( ف٤ ) اور تمہیں سیدھی راہ دکھا دے ( ف۵ )
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے 2 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے 3 اور تمہیں سیدھا راستہ دکھاۓ4
تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت ( کے اُن تمام اَفراد ) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے٭ ( جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کیے اور قربانیاں دیں ) اور ( یوں اسلام کی فتح اور امت کی بخشش کی صورت میں ) آپ پر اپنی نعمت ( ظاہراً و باطناً ) پوری فرما دے اور آپ ( کے واسطے سے آپ کی امت ) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :2 جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے ۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں ، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے ۔ مگر اللہ تعالی کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سے اس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی ۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصہ دراز درکار تھا ، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہو سکتی تھی ۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں ۔ دراصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے ۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں ۔ تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے ، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالی کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں ( جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں ) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں ، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً شکوراً ۔ کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ( احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :3 نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف ، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں ۔ کفر و فسق کا غلبہ ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو ، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن فتنہ قرار دیتا ہے ۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو ، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقوی کا سکہ رواں کر سکیں ، تو یہ ان پر اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی ، اس لیے اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے ، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :4 اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کرلیں ۔