Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
سَيَـقُوۡلُ لَكَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَـتۡنَاۤ اَمۡوَالُـنَا وَاَهۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَـنَا‌ ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِهِمۡ مَّا لَـيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ‌ؕ قُلۡ فَمَنۡ يَّمۡلِكُ لَـكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـًٔــا اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ نَفۡعًا ‌ؕ بَلۡ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿11﴾
د یہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے ، آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے ۔
سيقول لك المخلفون من الاعراب شغلتنا اموالنا و اهلونا فاستغفر لنا يقولون بالسنتهم ما ليس في قلوبهم قل فمن يملك لكم من الله شيا ان اراد بكم ضرا او اراد بكم نفعا بل كان الله بما تعملون خبيرا
Those who remained behind of the bedouins will say to you, "Our properties and our families occupied us, so ask forgiveness for us." They say with their tongues what is not within their hearts. Say, "Then who could prevent Allah at all if He intended for you harm or intended for you benefit? Rather, ever is Allah , with what you do, Acquainted.
Dehatiyon mein say jo log peechay chor diyey gaye thay woh abb tujh say kahen gay kay hum apnay maal aur baal bachon mein lagay reh gaye pus aap humaray liye maghfirat talab kijiye. Yeh log apni zabano say woh kehtay hain jo inn kay dilon mein nahi hai. Aap jawab day dijiye kay tumharay liye Allah ki taraf say kissi cheez ka bhi ikhtiyar kon rakhta hai agar woh tumhen nuksan phonchana chahye to ya tumhen koi nafa dena chahye to, bulkay tum jo kuch ker rahey ho uss say Allah khoob ba-khabar hai.
وہ دیہاتی جو ( حدیبیہ کے سفر میں ) پیچھے رہ گئے تھے ، ( ٧ ) اب وہ تم سے ضرور یہ کہیں گے کہ : ہمارے مال و دولت اور ہمارے اہل و عیال نے ہمیں مشغول کرلیا تھا ، اس لیے ہمارے لیے مغفرت کی دعا کردیجیے ۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے د لوں میں نہیں ہوتیں ۔ ( ان سے ) کہو کہ : اچھا تو اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے سامنے تمہارے معاملے میں کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہو؟ ( ٨ ) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔
اب تم سے کہیں گے جو گنوار ( اعرابی ) پیچھے رہ گئے تھے ( ف۲۰ ) کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھا ( ف۲۱ ) اب حضور ہماری مغفرت چاہیں ( ف۲۲ ) اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ( ف۲۳ ) تم فرماؤ تو اللہ کے سامنے کسے تمہارا کچھ اختیار ہے اگر وہ تمہارا برا چاہے یا تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے ، بلکہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، بدوی عربوں20 میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا ، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں21 ۔ ان سے کہنا اچھا ، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے22 ۔
عنقریب دیہاتیوں میں سے وہ لوگ جو ( حدیبیہ میں شرکت سے ) پیچھے رہ گئے تھے آپ سے ( معذرۃً یہ ) کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول کر رکھا تھا ( اس لئے ہم آپ کی معیت سے محروم رہ گئے ) سو آپ ہمارے لئے بخشش طلب کریں ۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ ( باتیں ) کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں ۔ آپ فرما دیں کہ کون ہے جو تمہیں اﷲ کے ( فیصلے کے ) خلاف بچانے کا اختیار رکھتا ہو اگر اس نے تمہارے نقصان کا ارادہ فرما لیا ہو یا تمہارے نفع کا ارادہ فرما لیا ہو ، بلکہ اﷲ تمہارے کاموں سے اچھی طرح باخبر ہے
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :20 یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی ، مگر وہ ایمان کا دعوی رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم ، مُزَینہ ، جُہَینہ ، غِفار ، اَشْجع ، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :21 اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہوگا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ دراصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہوگا ۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں ، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے ۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے ۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پروا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :22 یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہوگا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے ۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی ۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے ، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں ۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
مجاہدین کی کامیاب واپسی جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلتے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہو جائیں گے بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آرہے ہیں تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی سے خبردار کر دیا کہ یہ بد باطن لوگ آکر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمان داری کے اظہار کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے ۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کر سکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا ۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے ، ان بدخیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ ( بورا ) لغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ملک اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکٹھائے وہ اس کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے ۔