Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
سَيَـقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انْطَلَقۡتُمۡ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡهَا ذَرُوۡنَا نَـتَّبِعۡكُمۡ‌ ۚ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّبَدِّلُوۡا كَلٰمَ اللّٰهِ‌ ؕ قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ‌ ۚ فَسَيَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَـنَا‌ ؕ بَلۡ كَانُوۡا لَا يَفۡقَهُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿15﴾
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے ، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے کلام کو بدل دیں آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے وہ اس کا جواب دیں گے ( نہیں نہیں ) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو ( اصل بات یہ ہے ) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں ۔
سيقول المخلفون اذا انطلقتم الى مغانم لتاخذوها ذرونا نتبعكم يريدون ان يبدلوا كلم الله قل لن تتبعونا كذلكم قال الله من قبل فسيقولون بل تحسدوننا بل كانوا لا يفقهون الا قليلا
Those who remained behind will say when you set out toward the war booty to take it, "Let us follow you." They wish to change the words of Allah . Say, "Never will you follow us. Thus did Allah say before." So they will say, "Rather, you envy us." But [in fact] they were not understanding except a little.
Jabb tum ghanimaten lenay janay lago gay to jhat say yeh peechay choray huye log kehney lagen gay kay humen bhi apnay sath chalney ki ijazat dijiye’ woh chahtay hain kay Allah Taalaa kay kalam ko badal dein aap keh dijiye! Kay Allah Taalaa pehaly hi farma chuka hai kay tum hergiz humaray sath nahi chalo gay’ woh iss ka jawab dein gay ( nahi nahi ) bulkay tum hum say hasad kertay ho’ ( asal baat yeh hai ) kay woh log boht hi kum samjhtay hain.
۔ ( مسلمانو ) جب تم غنیمت کے مال لینے کے لیے چلو گے تو یہ ( حدیبیہ کے سفر سے ) پیچھے رہنے والے تم سے کہیں گے کہ : ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ ( ١٠ ) وہ چاہیں گے کہ اللہ کی بات کو بدل دیں ۔ ( ١١ ) تم کہہ دینا کہ : تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے ۔ اللہ نے پہلے سے یوں ہی فرما رکھا ہے ۔ ( ١٢ ) اس پر وہ کہیں گے کہ : دراصل آپ لوگ ہم سے حسد رکھتے ہیں ۔ ( ١٣ ) نہیں ! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں کہ بہت کم بات سمجھتے ہیں ۔
اب کہیں گے پیچھے بیٹھ رہنے والے ( ف۲۹ ) جب تم غنیمتیں لینے چلو ( ف۳۰ ) تو ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے دو ( ف۳۱ ) وہ چاہتے ہیں اللہ کا کلام بدل دیں ( ف۳۲ ) تم فرماؤ ہرگز ہمارے ساتھ نہ آؤ اللہ نے پہلے سے یونہی فرمادیا ( ف۳۳ ) تو اب کہیں گے بلکہ تم ہم سے جلتے ہو ( ف۳٤ ) بلکہ وہ بات نہ سمجھتے تھے ( ف۳۵ ) مگر تھوڑی ( ف۳٦ )
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو27 ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں28 ۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے29 ۔ یہ کہیں گے کہ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو ۔ ( حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے ۔ ) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ۔
جب تم ( خیبر کے ) اَموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو ( سفرِ حدیبیہ میں ) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے: ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے فرمان کو بدل دیں ۔ فرما دیجئے: تم ہرگز ہمارے پیچھے نہیں آسکتے اسی طرح اﷲ نے پہلے سے فرما دیا تھا ۔ سو اب وہ کہیں گے: بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو ، بات یہ ہے کہ یہ لوگ ( حق بات کو ) بہت ہی کم سمجھتے ہیں
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :27 یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چرا گئے تھے ، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آئے گا ، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آگیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا ۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک ، وادی القریٰ ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں گی ۔ اس لیے اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آیات میں پیشگی خبردار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے ، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہرگز نہ دیا جائے گا ، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :28 اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے ۔ اللہ تعالی نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت 18 میں بصراحت ارشاد ہوا ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :29 اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہوگا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا ، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت 84 انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے ۔ لیکن درحقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے ، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات 18 ۔ 19 کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے ۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں ، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات 18 ۔ 19 بھی شامل ہیں ، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ تعالی اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا ، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا ۔
مال غنیمت کے طالب ارشاد الہٰی ہے کہ جن بدوی لوگوں نے حدیبیہ میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا ساتھ نہ دیا وہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان صحا بہ کو خیبر کی فتح کے موقع پر مال غنیمت سمیٹنے کے لئے جاتے ہوئے دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو ، مصیبت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے راحت کو دیکھ کر شامل ہونا چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں ہرگز ساتھ نہ لینا جب یہ جنگ سے جی چرائیں تو پھر غنیمت میں حصہ کیوں لیں ؟ اللہ تعالیٰ نے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ اہل حدیبیہ سے کیا ہے نہ کہ ان سے جو کٹھن وقت پر ساتھ نہ دیں اور آرام کے وقت مل جائیں ان کی چاہت ہے کہ کلام الٰہی کو بدل دیں یعنی اللہ نے تو صرف حدیبیہ کی حاضری والوں سے وعدہ کیا تو یہ چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی غیر حاضری کے اللہ کے اس وعدے میں مل جائیں تاکہ وہ بھی بدلا ہوا ثابت ہو جائے ابن زید کہتے ہیں مراد اس سے یہ حکم الہی ہے ( فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَاۗىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا 83؀ ) 9- التوبہ:83 ) ، یعنی اے نبی اگر تمہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کے لئے نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم ان سے کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو تم وہی ہو کہ پہلی مرتبہ ہم سے پیچھے رہ جانے میں ہی خوش رہے پس اب ہمیشہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو لیکن اس قول میں نظر ہے اس لئے کہ یہ آیت سورہ برات کی ہے جو غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور غزوہ تبوک غزوہ حدیبیہ کے بہت بعد کا ہے ابن جریج کا قول ہے کہ مراد اس سے ان منافقوں کا مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر جہاد سے باز رکھنا ہے فرماتا ہے کہ انہیں ان کی اس آرزو کا جواب دو کہ تم ہمارے ساتھ چلنا چاہو اس سے پہلے اللہ یہ وعدہ اہل حدیبیہ سے کر چکا ہے اس لئے تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اب وہ طعنہ دیں گے کہ اچھا ہمیں معلوم ہو گیا تم ہم سے جلتے ہو تم نہیں چاہتے کہ غنیمت کا حصہ تمہارے سوا کسی اور کو ملے اللہ فرماتا ہے دراصل یہ ان کی ناسمجھی ہے اور اسی ایک پر کیا موقوف ہے یہ لوگ سراسر بےسمجھ ہیں ۔