Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
هُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡكُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَالۡهَدۡىَ مَعۡكُوۡفًا اَنۡ يَّبۡلُغَ مَحِلَّهٗ‌ ؕ وَلَوۡلَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَنِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡهُمۡ اَنۡ تَطَئُوْ هُمۡ فَتُصِيۡبَكُمۡ مِّنۡهُمۡ مَّعَرَّةٌ ۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ۚ ‌لِيُدۡخِلَ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ۚ لَوۡ تَزَيَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا‏ ﴿25﴾
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے ( روکا ) اور اگر ایسے ( بہت سے ) مسلمان مرد اور ( بہت سی ) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا ( تو تمہیں لڑنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ) تاکہ اللہ تعالٰی اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے ۔
هم الذين كفروا و صدوكم عن المسجد الحرام و الهدي معكوفا ان يبلغ محله و لو لا رجال مؤمنون و نساء مؤمنت لم تعلموهم ان تطوهم فتصيبكم منهم معرة بغير علم ليدخل الله في رحمته من يشاء لو تزيلوا لعذبنا الذين كفروا منهم عذابا اليما
They are the ones who disbelieved and obstructed you from al-Masjid al-Haram while the offering was prevented from reaching its place of sacrifice. And if not for believing men and believing women whom you did not know - that you might trample them and there would befall you because of them dishonor without [your] knowledge - [you would have been permitted to enter Makkah]. [This was so] that Allah might admit to His mercy whom He willed. If they had been apart [from them], We would have punished those who disbelieved among them with painful punishment
Yehi woh log hain jinhon ney kufur kiya aur tumko masjid-e-haram say roka aur qurbani kay liye moqoof janwar ko uss ki qurban gah mein phonchney say ( roka ) aur agar aisay ( boht say ) musalman mard aur ( boht si ) musalman aurten na hoti jinn ki tum ko khabar na thi yani unn kay piss janey ka ehtimal na hota jiss per unki waja say tum ko bhi bey khabri mein zararr phonchta ( to tumhen larney ki ijazat dey di jati lekin aisa nahi kiya gaya ) takay Allah Taalaa apni rehmat mein jiss ko chahye dakhil keray aur agar yeh alag alag hotay to inn mein say jo kafir thay hum unn ko dard-naak saza detay.
یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا ، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا ، اور قربانی کے جانوروں کو جو ٹھہرے ہوئے کھڑے تھے ، اپنی جگہ پہنچنے سے روک دیا ، ( ٢٣ ) اور اگر کچھ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ( مکہ میں ) نہ ہوتیں جن کے بارے میں تمہیں خبر بھی نہ ہوتی کہ تم انہیں پیس ڈالو گے ، اور اس کی وجہ سے بے خبری میں تم کو نقصان پہنچ جاتا ( ٢٤ ) ( تو ہم ان کافروں سے تمہاری صلح کے بجائے جنگ کرووا دیتے ، لیکن ہم نے جنگ کو اس لیے روکا ) تاکہ اللہ جس کو چاہے ، اپنی رحمت میں داخل کردے ۔ ( ٢٥ ) ( البتہ ) اگر وہ مسلمان وہاں سے ہٹ جاتے تو ہم ان ( اہل مکہ ) میں سے جو کافر تھے ، انہیں دردناک سزا دیتے ۔ ( ٢٦ )
وہ ( ف۵۹ ) وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے ( ف٦۰ ) روکا اور قربانی کے جانور رُکے پڑے اپنی جگہ پہنچنے سے ( ف٦۱ ) اور اگر یہ نہ ہوتا کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ( ف٦۲ ) جن کی تمہیں خبر نہیں ( ف٦۳ ) کہیں تم انہیں روند ڈالو ( ف٦٤ ) تو تمہیں ان کی طرف سے انجانی میں کوئی مکروہ پہنچے تو ہم تمہیں ان کی قتال کی اجازت دیتے ان کا یہ بچاؤ اس لیے ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے جسے چاہے ، اگر وہ جدا ہوجاتے ( ف٦۵ ) تو ہم ضرور ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب دیتے ( ف٦٦ )
وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا43 ۔ اگر ( مکہ میں ) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے ، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا ( تو جنگ نہ روکی جاتی ۔ روکی وہ اس لیے گئی ) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے ۔ وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو ( اہل مکہ میں سے ) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے 44 ۔
یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجدِ حرام سے روک دیا اور قربانی کے جانوروں کو بھی ، جو اپنی جگہ پہنچنے سے رکے پڑے رہے ، اور اگر کئی ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں ( مکہّ میں موجود نہ ہوتیں ) جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو کہ تم انہیں پامال کر ڈالو گے اور تمہیں بھی لاعلمی میں ان کی طرف سے کوئی سختی اور تکلیف پہنچ جائے گی ( تو ہم تمہیں اِسی موقع پر ہی جنگ کی اجازت دے دیتے ۔ مگر فتحِ مکّہ کو مؤخّر اس لئے کیا گیا ) تاکہ اﷲ جسے چاہے ( صلح کے نتیجے میں ) اپنی رحمت میں داخل فرما لے ۔ اگر ( وہاں کے کافر اور مسلمان ) الگ الگ ہو کر ایک دوسرے سے ممتاز ہو جاتے تو ہم ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب کی سزا دیتے
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :43 یعنی جس خلوص اور بے نفسی کے ساتھ تم لوگ دین حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور جس طرح بے چون و چرا رسول کی اطاعت کر رہے تھے ، اللہ اسے بھی دیکھ رہا تھا ، اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کفار سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہیں اور اسی وقت تمہارے ہاتھوں سے ان کی سرکوبی کرا دی جاتی ۔ لیکن اس کے باوجود ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر اللہ نے تمہارے ہاتھ ان سے اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :44 یہ تھی وہ مصلحت جس کی بنا پر اللہ تعالی نے حدیبیہ میں جنگ نہ ہونے دی ۔ اس مصلحت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مکہ معظمہ میں اس وقت بہت سے مسلمان مرد و زن ایسے موجود تھے جنہوں نے یا تو اپنا ایمان چھپا رکھا تھا ، یا جن کا ایمان معلوم تھا ، مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور ظلم و ستم کے شکار ہو رہے تھے ۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی اور مسلمان کفار کو رگیدتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو کفار کے ساتھ ساتھ یہ مسلمان بھی نادانستگی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے جس سے مسلمانوں کو اپنی جگہ بھی رنج و افسوس ہوتا اور مشرکین عرب کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ لوگ تو لڑائی میں خود اپنے دینی بھائیوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان بے بس مسلمانوں پر رحم کھا کر ، اور صحابہ کرام کو رنج اور بدنامی سے بچانے کی خاطر اس موقع پر جنگ کو ٹال دیا ۔ دوسرا پہلو اس مصلحت کا یہ تھا کہ اللہ تعالی قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دو سال کے اندر ان کو ہر طرف سے گھیر کر اس طرح بے بس کر دے کہ وہ کسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہو جائیں ، اور پھر پورا کا پورا قبیلہ اسلام قبول کر کے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جائے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا ۔ اس مقام پر یہ فقہی بحث پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری اور کافروں کی جنگ ہو رہی ہو اور کافروں کے قبضے میں کچھ مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے ہوں جنہیں وہ ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں ، یا کافروں کے جس شہر پر ہم چڑھائی کر رہے ہوں وہاں مسلمان آبادی بھی موجود ہو ، یا کافروں کا کوئی جنگی جہاز ہماری زد میں ہو اور اس کے اندر کافروں نے کچھ مسلمانوں کو بھی رکھ چھوڑا ہو ، تو کیا ایسی صورت میں ہم ان پر گولہ باری کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مختلف فقہاء نے جو فیصلے دیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حالت میں گولہ باری نہیں کرنی چاہیے ، اور اس کے لیے وہ اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی تو حدیبیہ میں جنگ کو روک دیا ( احکام القرآن لابن العربی ) ۔ لیکن فی الواقع یہ ایک کمزور دلیل ہے ۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ ایسی حالت میں حملہ کرنا حرام و ناجائز ہے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے حملہ سے اجتناب کیا جاسکتا ہے جبکہ اجتناب سے یہ خطرہ نہ کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا ، یا ان پر ہمارے فتح یاب ہونے کے مواقع باقی نہ رہیں گے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام زُفَر اور امام محمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں گولہ باری کرنا بالکل جائز ہے ، حتی کہ اگر کفار مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لا کھڑا کریں تب بھی ان پر گولی چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کے خون کا کوئی کفارہ اور کوئی دیت مسلمانوں پر واجب نہیں ہے ۔ ( احکام القرآن للجصاص کتاب السیر للامام محمد ، باب قطع الماء عن اہل الحرب ) ۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اس حالت میں گولہ باری کو جائز رکھتے ہیں ، مگر وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کی دیت تو نہیں ، البتہ کفارہ مسلمانوں پر واجب ہے ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام اوزاعی اور لیث بن سعد رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں تو ان پر گولی نہیں چلانی چاہیے ۔ اسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان کے جنگی جہاز میں خود ہمارے قیدی بھی موجود ہیں ، تو اس حالت میں اس کو غرق نہ کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر ہم ان کے کسی شہر پر حملہ کریں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس شہر میں مسلمان بھی موجود ہیں تو اس پر گولہ باری کرنا جائز ہے ، کیونکہ یہ امر یقینی نہیں ہے کہ ہمارا گولہ مسلمانوں ہی پر جا کر گرے گا ، اور اگر کوئی مسلمان اس گولہ باری کا شکار ہو جائے تو یہ ہماری طرف سے بالقصد مسلمان کا قتل نہ ہوگا بلکہ نادانستگی میں ایک حادثہ ہو گا ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس حالت میں گولہ باری کرنا ناگزیر نہ ہو تو مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنا بہتر ہے ۔ اگرچہ اس صورت میں گولہ باری کرنا حرام نہیں مگر وہ ضرور ہے ۔ لیکن اگر فی الواقع اس کی ضرورت ہو ، اور اندیشہ ہو کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو یہ کفار کے لیے جنگی حیثیت سے مفید اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا تو پھر گولہ باری کرنا جائز ہے ۔ مگر اس حالت میں بھی مسلمانوں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ۔ مزید براں امام شافعی رحمہ اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر معرکہ قتال میں کفار کسی مسلمان کو ڈھال بنا کر آگے کریں اور کوئی مسلمان اسے قتل کر دے تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ قاتل معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہے ، اور دوسری صورت یہ کہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہے ۔ پہلی صورت میں دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں ، اور دوسری صورت میں صرف کفارہ واجب ہے ( مغنی المحتاج ) ۔
مسجد حرام بیت اللہ کے اصل حقدار مشرکین عرب جو قریش تھے اور جو ان کے ساتھ اس عہد پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے ان کی نسبت قرآن خبر دیتا ہے کہ دراصل یہ لوگ کفر پر ہیں انہوں نے ہی تمہیں مسجد حرام بیت اللہ شریف سے روکا ہے حالانکہ اصلی حقدار اور زیادہ لائق بیت اللہ کے تم ہی لوگ تھے پھر ان کی سرکشی اور مخالفت نے انہیں یہاں تک اندھا کر دیا کہ اللہ کی راہ کی قربانیوں کو بھی قربان گاہ تک نہ جانے دیا یہ قربانیاں تعداد میں ستر تھیں جیسے کہ عنقریب ان کا بیان آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں یہ راز پوشیدہ تھے کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ان ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکے ہیں نہ ہجرت کر کے تم میں مل سکے ہیں اور نہ تم انہیں جانتے ہو تو یوں دفعۃً اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور بےعلمی میں تم ہی مستحق گناہ اور مستحق دیت بن جاتے ، پاس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لے آئیں ۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے تو یقینا ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور ان کا نام مٹا دیتے حضرت جنید بن سبیع فرماتے ہیں صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ رہا تھا لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا میں مسلمان ہو گیا اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا ، ہمارے ہی بارے میں یہ آیت ( لو لا رجال ) الخ ، نازل ہوئی ہے ہم کل نو شخص تھے سات مرد و عورتیں ( طبرانی ) اور روایت میں ہے کہ ہم تین مرد تھے اور نو عورتیں تھیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر یہ مومن ان کافروں میں ملے جلے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کافروں کو سخت سزا دیتا یہ قتل کر دئیے جاتے ۔ پھر فرماتا ہے جبکہ یہ کافر اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جاہلیت کو جما چکے تھے صلح نامہ میں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) لکھنے سے انکار کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانے سے انکار کیا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے نبی اور مومنوں کے دل کھول دئیے ان پر اپنی سکینت نازل فرما کر انہیں مضبوط کر دیا اور تقوے کے کلمے پر انہیں جما دیا یعنی آیت ( لا الہ الا اللہ ) پر جیسے ابن عباس کا فرمان ہے اور جیسے کہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں موجود ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں جب تک کہ وہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) نہ کہہ لیں جس نے آیت ( لا الہ الا اللہ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنے مال کو اور اپنی جان کو بچا لیا مگر حق اسلام کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ایک قوم کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت ( اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ 35؀ۙ ) 37- الصافات:35 ) یعنی ان سے کہا جاتا تھا کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جل ثناء نے یہاں مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہی اس کے زیادہ حقدار اور یہی اس کے قابل بھی تھے ۔ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے انہوں نے اس سے تکبر کیا اور مشرکین قریش نے اسی سے حدیبیہ والے دن تکبر کیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح نامہ مکمل کر لیا ، ابن جریر میں بھی یہ حدیث ان ہی زیادتیوں کے ساتھ مروی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پچھلے جملے راوی کے اپنے ہیں یعنی حضرت زہری کا قول ہے جو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا حدیث میں ہی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اخلاص ہے عطا فرماتے ہیں وہ کلمہ یہ ہے حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر ) حضرت فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ) ہے حضرت علی فرماتے ہیں اس سے حدیث ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) مراد ہے یہی قول حضرت ابن عمر کا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ کی وحدانیت کی شہادت ہے جو تمام تقوے کی جڑ ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے ۔ حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں کلمہ تقویٰ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے حضرت زہری فرماتے ہیں آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) مراد ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں مراد حدیث ( لا الہ الا اللہ ) ہے پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ مستحق خیر کون ہے ؟ اور مستحق شر کون ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت اسی طرح ہے ( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیتہ حمیتہ الجاھلیتہ ولو حمیتم کما حموا الفسد المسجد الحرام ) یعنی کافروں نے جس وقت اپنے دل میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی اگر اس وقت تم بھی ان کی طرح ضد پر آجاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسجد حرام میں فساد برپا ہو جاتا جب حضرت عمر کو اس قرأت کی خبر پہنچی تو بہت تیز ہوئے لیکن حضرت ابی نے فرمایا یہ تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا جاتا رہتا تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتا تھا آپ اس میں سے مجھے بھی سکھاتے تھے اس پر جناب عمر فاروق نے فرمایا آپ ذی علم اور قرآن دان ہیں آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے وہ پڑھئے اور سکھائیے ( نسائی ) ان احادیث کا بیان جن میں حدیبیہ کا قصہ اور صلح کا واقعہ ہے مسند احمد میں حضرت مسور بن محزمہ اور حضرت مروان بن حکم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت بیت اللہ کے ارادے سے چلے آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا ستر اونٹ قربانی کے آپ کے ساتھ تھے کل ساتھی آپ کے سات سو تھے ایک ایک اونٹ دس دس آدمیوں کی طرف سے تھا آپ جب عسفان پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی نے آپ کو خبر دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں نے آپ کے آنے کی خبر پا کر مقابلہ کی تیاریاں کر لی ہیں انہوں نے اونٹوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے ساتھ لے لئے ہیں اور چیتے کی کھالیں پہن لی ہیں اور عہد و پیمان کر لئے ہیں کہ وہ آپ کو اس طرح جبراً مکہ میں نہیں آنے دیں گے خالد بن ولید کو انہوں نے چھوٹا سا لشکر دے کر کراع غمیم تک پہنچا دیا یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس قریشیوں کو لڑائیوں نے کھا لیا کتنی اچھی بات تھی کہ وہ مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیتے اگر وہ مجھ پر غالب آجاتے تو ان کا مقصود پورا ہو جاتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور لوگوں پر غالب کر دیتا تو پھر یہ لوگ بھی دین اسلام کو قبول کر لیتے اور اگر اس وقت بھی اس دین میں نہ آنا چاہتے تو مجھ سے لڑتے اور اس وقت ان کی طاقت بھی پوری ہوتی قریشیوں نے کیا سمجھ رکھا ہے ؟ قسم اللہ اس دین پر میں ان سے جہاد کرتا رہوں گا اور ان سے مقابلہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے ان پر کھلم کھلا غلبہ عطا فرما دے یا میری گردن کٹ جائے پھر آپ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ دائیں طرف حمص کے پیچھے سے اس راستہ پر چلیں جو ( ثنیۃ المرار ) کو جاتا ہے اور حدیبیہ مکہ کے نیچے کے حصے میں ہے ۔ خالد والے لشکر نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ بدل دیا ہے تو یہ دوڑے ہوئے قریشیوں کے پاس گئے اور انہیں اس کی خبر دی ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ( ثنیۃ المرار ) میں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی ۔ لوگ کہنے لگے اونٹنی تھک گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ یہ تھکی نہ اس کی بیٹھ جانے کی عادت اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ۔ سنو قریش آج مجھ سے جو چیز مانگیں گے جس میں صلہ رحمی ہو میں انہیں دوں گا پھر آپ نے لشکریوں کو حکم دیا کہ وہ پڑاؤ کریں انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پوری وادی میں پانی نہیں آپ نے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر ایک صحابی کو دیا اور فرمایا اسے یہاں کے کسی کنویں میں گاڑ دو اس کے گاڑتے ہی پانی جوش مارتا ہوا ابل پڑا تمام لشکر نے پانی لے لیا اور وہ برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا جب پڑاؤ ہو گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئے اتنے میں بدیل بن ورقہ اپنے ساتھ قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں کو لے کر آیا آپ نے اس سے بھی وہی فرمایا جو بشر بن سفیان سے فرمایا تھا چنانچہ یہ لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ تم لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی عجلت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے لڑنے کو نہیں آئے آپ تو صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت کرنے کو آئے ہیں تم اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ڈالو دراصل قبیلہ خزاعہ کے مسلم و کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرفدار تھے مکہ کی خبریں انہی لوگوں سے آپ کو پہنچا کرتی تھی قریشیوں نے انہیں جواب دیا کہ گو آپ اسی ارادے سے آئے ہوں لیکن یوں اچانک تو ہم انہیں یہاں نہیں آنے دیں گے ورنہ لوگوں میں تو یہی باتیں ہوں گی کہ آپ مکہ گئے اور کوئی آپ کو روک نہ سکا انہوں نے پھر مکرز بن حفص کو بھیجا یہ بنو عامر بن لوئی کے قبیلے میں سے تھا اسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عہد شکن شخص ہے اور اس سے بھی آپ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے آنے والے دونوں اور شخصوں سے فرمایا تھا یہ بھی لوٹ گیا اور جا کر قریشیوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا قریشیوں نے پھر حلیس بن علقمہ کنانی کو بھیجا یہ ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کا سردار تھا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس قوم سے ہے جو اللہ کے کاموں کی عظمت کرتی ہے اپنی قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو ۔ اس نے جو دیکھا کہ ہر طرف سے قربانی کے نشان دار جانور آ جا رہے ہیں اور رک جانے کی وجہ سے ان کے بال اڑے ہوئے ہیں یہ تو وہیں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بغیر لوٹ گیا اور جا کر قریش سے کہا کہ اللہ جانتا ہے تمہیں حلال نہیں کہ تم انہیں بیت اللہ سے روکو اللہ کے نام کے جانور قربان گاہ سے رکے کھڑے ہیں یہ سخت ظلم ہے ۔ اتنے دن رکے رہنے سے ان کے بال تک اڑ گئے ہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں قریش نے کہا تو تو نرا اعرابی ہے خاموش ہو کر بیٹھ جا اب انہوں نے مشورہ کر کے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا عروہ نے اپنے جانے سے پہلے کہا کہ اے قریشیو جن جن کو تم نے وہاں بھیجا وہ جب واپس ہوئے تو ان سے تم نے کیا سلوک کیا یہ میں دیکھ رہا ہوں تم نے انہیں برا کہا ان کی بےعزتی کی ان پر تہمت رکھی ان سے بد گمانی کی میری حالت تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہیں مثل باپ کے سمجھتا ہوں تم خوب جانتے ہو کہ جب تم نے ہائے وائے کی میں نے اپنی تمام قوم کو اکٹھا کیا اور جس نے میری بات مانی میں نے اسے اپنے ساتھ لیا اور تمہاری مدد کے لئے اپنی جان مال اور اپنی قوم کو لے کر آپہنچا سب نے کہا بیشک آپ سچے ہیں ہمیں آپ سے کسی قسم کی بد گمانی نہیں آپ جائیے ۔ اب یہ چلا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگا کہ آپ نے ادھر ادھر کے کچھ لوگوں کو جمع کر لیا ہے اور آئے ہیں اپنی قوم کی شان و شوکت کو آپ ہی توڑنے کے لئے ۔ سنئے یہ قریشی ہیں آج یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو چیتوں کی کھالیں پہنے ہوئے ہیں وہ اللہ کو بیچ میں رکھ کر عہد و پیمان کر چکے ہیں کہ ہرگز ہرگز آپ کو اس طرح اچانک زبردستی مکہ میں نہیں آنے دیں گے اللہ کی قسم مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لوگ جو اس وقت بھیڑ لگائے آپ کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں یہ لڑائی کے وقت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ، یہ سن کر ابو بکر صدیق سے رہا نہ گیا آپ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آپ نے کہاجالات کی وہ چوستا رہ ، ہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں؟ عروہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ابو قحافہ کے بیٹے تو کہنے لگا اگر مجھ پر تیرا احسان پہلے کا نہ ہوتا تو میں تجھے ضرور مزہ چکھاتا اس کے بعد عروہ نے پھر کچھ کہنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالا اس کی اس بے ادبی کو حضرت مغیرہ بن شعبہ برداشت نہ کر سکے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑے تھے لوہا ان کے ہاتھ میں تھا وہی اس کے ہاتھ پر مار کر فرمایا اپنا ہاتھ دور رکھ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھو نہیں سکتا ۔ یہ کہنے لگا تو بڑا ہی بدزبان اور ٹیڑھا آدمی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اس نے پوچھا یہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تیرا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے ؟ تو کہنے لگا غدار تو تو کل طہارت بھی نہ جانتا تھا ۔ الغرض اسے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے والوں کو فرمایا تھا اور یقین دلا دیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ۔ یہ واپس چلا اور اس نے یہاں کا یہ نقشہ دیکھا تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے بنے ہوئے ہیں آپ کے وضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں آپ کے تھوک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے وہ ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں آپ کا کوئی بال گر پڑے تو ہر شخص لپکتا ہے کہ وہ اسے لے لے ، جب یہ قریشیوں کے پاس پہنچا تو کہنے لگا اے قریش کی جماعت کے لوگو!میں کسریٰ کے ہاں اس کے دربار میں ہو آیا ہوں اللہ کی قسم میں نے ان بادشاہوں کی بھی وہ عظمت اور وہ احترام نہیں دیکھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے آپ کے اصحاب تو آپ کی وہ عزت کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے اب تم سوچ سمجھ لو اور اس بات کو باور کر لو کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ اپنے نبی کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیں ، اب آپ نے حضرت عمر کو بلایا اور انہیں مکہ والوں کے پاس بھیجنا چاہا لیکن اس سے پہلے یہ واقعہ ہو چکا تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت خراش بن امیہ خزاعی کو اپنے اونٹ پر جس کا نام ثعلب تھا سوار کرا کر مکہ مکرمہ بھیجا تھا قریش نے اس اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں تھیں اور خود قاصد کو بھی قتل کر ڈالتے لیکن احابیش قوم نے انہیں بچا لیا ( شاید اسی بنا پر ) حضرت عمر نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کر دیں کیونکہ وہاں میرے قبیلہ بنو عدی کا کوئی شخص نہیں جو مجھے ان قریشیوں سے بچانے کی کوشش کرے اس لئے کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ حضرت عثمان بن عفان کو بلا کر انہیں مکہ میں بھیجیں کہ جا کر قریش سے کہہ دیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف بیت اللہ شریف کی زیارت اور اس کی عظمت بڑھانے کو آئے ہیں ، حضرت عثمان نے شہر میں قدم رکھا ہی تھا جو ابان بن سعید بن عاص آپ کو مل گئے اور اپنی سواری سے اتر کو حضرت عثمان کو آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھا اور اپنی ذمہ داری پر آپ کو لے چلا کہ آپ پیغام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کو پہنچا دیں چنانچہ آپ وہاں گئے اور قریش کو یہ پیغام پہنچا دیا ، انہوں نے کہا کہ آپ تو آہی گئے ہیں آپ اگر چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کرلیں لیکن ذوالنورین نے جواب دیا کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کرلیں ناممکن ہے کہ میں طواف کروں قریشیوں نے جناب عثمان کو روک لیا اور انہیں واپس نہ جانے دیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ، زہری کی روایت میں ہے کہ پھر قریشیوں نے سہیل بن عمرو کو آپ کے پاس بھیجا کہ تم جا کر صلح کر لو لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سال آپ مکہ میں نہیں آ سکتے تا کہ عرب ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ وہ آئے اور تم روک نہ سکے چنانچہ سہیل یہ سفارت لے کر چلا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ قریشیوں کا ارادہ اب صلح کا ہو گیا جو اسے بھیجا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں شروع کیں اور دیر تک سوال جواب اور بات چیت ہوتی رہی شرائط صلح طے ہوگئے صرف لکھنا باقی رہا ، حضرت عمر دوڑے ہوئے حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور فرمانے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں تو کہا پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دینی معاملات میں اتنی کمزوری دکھائیں ، حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا عمر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے رہو آپ اللہ کے سچے رسول ہیں حضرت عمر نے فرمایا یہ مجھے بھی کامل یقین ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، حضرت عمر سے پھر بھی نہ صبر ہو سکا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسی طرح کہا آپ نے جواب میں فرمایا سنو میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کا غلام ہوں میں اس کے فرمان کے خلاف نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ضائع نہ کرے گا ، حضرت عمر فرماتے ہیں کہنے کو تو اس وقت جوش میں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سب کچھ کہہ گیا لیکن پھر مجھے بڑی ندامت ہوئی میں نے اس کے بدلے بہت روزے رکھے بہت سی نمازیں پڑھیں اور بہت سے غلام آزاد کئے اس سے ڈر کر کہ مجھے اس گستاخی کی کوئی سزا اللہ کی طرف سے نہ ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو صلح نامہ لکھنے کے لئے بلوایا اور فرمایا لکھو آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) اس پر سہیل نے کہا میں اسے نہیں جانتا یوں لکھئے ( بسمک اللھم ) آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی لکھو پھر فرمایا لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس پر سہیل نے کہا اگر میں آپ کو رسول مانتا تو آپ سے لڑتا ہی کیوں ؟ یوں لکھئے کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور سہیل بن عمرو نے کیا اس بات پر کہ دس سال تک ہم میں کوئی لڑائی نہ ہو گی لوگ امن و امان سے رہیں گے ایک دوسرے سے بچے ہوئے رہیں گے اور یہ کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر چلا جائے گا آپ اسے واپس لوٹا دیں گے اور جو صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشیوں کے پاس چلا جائے گا وہ اسے نہیں لوٹائیں گے ہم میں آپ میں لڑائیاں بند رہیں گی صلح قائم رہے گی کوئی طوق و زنجیر قیدو بند بھی نہ ہو گا اسی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اور آپ کے عہدو پیمان میں آنا چاہے وہ آسکتا ہے اور جو شخص قریش کے عہدوپیمان میں آنا چاہے وہ بھی آسکتا ہے اس پر بنو خزاعہ جلدی سے بول اٹھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدو پیمان میں آنا اور بنو بکر نے کہا کہ ہم قریشیوں کے ساتھ ان کے ذمہ میں ہیں صلح نامہ میں یہ بھی تھا کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں مکہ میں نہ آئیں اگلے سال آئیں اس وقت ہم باہر نکل جائیں گے اور آپ نے اپنے اصحاب سمیت آئیں تین دن مکہ میں ٹھہریں ہتھیار اتنے ہی ہوں جتنے ایک سوار کے پاس ہوتے ہیں تلوار میان میں ہو ، ابھی صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے لڑکے حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ لوہے کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے مکہ سے چھپتے چھپاتے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدینہ سے نکلتے ہوئے ہی فتح کا یقین کئے ہوئے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھ چکے تھے اس لئے انہیں فتح ہونے میں ذرا سا بھی شک نہ تھا یہاں آکر جو یہ رنگ دیکھا کہ صلح ہو رہی ہے اور بغیر طواف کے بغیر زیارت بیت اللہ کے یہیں سے واپس ہونا پڑے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دباؤ ڈال کر صلح کر رہے ہیں تو اس سے وہ بہت ہی پریشان خاطر تھے بلکہ قریب تھا کہ ہلاک ہو جائیں ۔ یہ سب کچھ تو تھا ہی مزید برآں جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان تھے اور جنہیں مشرکین نے قید کر رکھا تھا اور جن پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے تھے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح موقعہ پا کر بھاگ آتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں تو سہیل اٹھ کر انہیں طمانچے مارنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے آپ کے درمیان تصفیہ ہو چکا ہے یہ اس کے بعد آیا ہے لہذا اس شرط کے مطابق میں اسے واپس لے جاؤں گا آپ جواب دیتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے سہیل کھڑا ہوتا ہے اور حضرت ابو جندل کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتا ہوا انہیں لے کر چلتا ہے حضرت ابو جندل بلند آواز کہتے ہیں اے مسلمانو مجھے مشرکوں کی طرف لوٹا رہے ہو ؟ ہائے یہ میرا دین مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں اس واقعہ نے صحابہ کو اور برا فروختہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل سے فرمایا ابو جندل صبر کر اور نیک نیت رہ اور طلب ثواب میں رہ نہ صرف تیرے لئے ہی بلکہ تجھ جیسے جتنے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ راستہ نکالنے والا ہے اور تم سب کو اس درد و غم رنج و الم ظلم و ستم سے چھڑوانے والا ہے ، ہم چونکہ صلح کر چکے ہیں شرطیں طے ہو چکی ہیں اس بنا پر ہم نے انہیں سردست واپس کر دیا ہے ، ہم غدر کرنا ، شرائط کے خلاف کرنا ، عہد شکنی کرنا نہیں چاہتے ۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت ابو جندل کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو جانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو جندل صبر کرو ان میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ مشرک لوگ ہیں ان کا خون مثل کتے کے خون کے ہے ۔ حضرت عمر ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کی موٹھ حضرت ابو جندل کی طرف کرتے جا رہے تھے کہ وہ تلوار کھینچ لیں اور ایک ہی وار میں باپ کے آرپار کر دیں لیکن حضرت ابو جندل کا ہاتھ باپ پر نہ اٹھا ۔ صلح نامہ مکمل ہو گیا فیصلہ پورا ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں نماز پڑھتے تھے اور جانور حلال ہونے کے لئے مضطرب تھے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اٹھو اپنی اپنی قربانیاں کر لو اور سر منڈوا لو لیکن ایک بھی کھڑا نہ ہوا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ۔ آپ لوٹ کر ام سلمہ کے پاس گئے اور فرمانے لگے لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ ام المومنین نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جس قدر صدمے میں یہ ہیں آپ کو بخوبی علم ہے آپ ان سے کچھ نہ کہئے اپنی قربانی کے جانور کے پاس جائیے اور اسے جہاں وہ ہو وہیں قربان کر دیجئے اور خود سر منڈوا لیجئے پھر تو ناممکن ہے کہ اور لوگ بھی یہی نہ کریں آپ نے یہی کیا اب کیا تھا ہر شخص اٹھ کھڑا ہوا قربانی کو قربان کیا اور سر منڈوا لیا اب آپ یہاں سے واپس چلے آدھا راستہ طے کیا ہو گا جو سورۃ الفتح نازل ہوئی ، یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے اس میں ہے کہ آپ کے سامنے ایک ہزار کئی سو صحابہ تھے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے قربانی کے اونٹوں کو نشان دار کیا اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے ایک جاسوس کو جو قبیلہ خزاعہ میں سے تھا تجسس کے لئے روانہ کیا ۔ غدیر اشطاط میں آکر اس نے خبر دی کہ قریش نے پورا مجمع تیار کر لیا ہے ادھر ادھر کے مختلف لوگوں کو بھی انہوں نے جمع کر لیا ہے اور ان کا ارادہ لڑائی کا اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا ہے آپ نے صحابہ سے فرمایا اب بتاؤ کیا ہم ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیں اگر وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی گردن کاٹ دی ہو گی ورنہ ہم انہیں غمگین چھوڑ کر جائیں گے اگر وہ بیٹھ رہیں گے تو اس غم و رنج میں رہیں گے اور اگر انہوں نے نجات پالی تو یہ گردنیں ہوں گی جو اللہ عزوجل نے کاٹ دی ہوں گی ، دیکھو تو بھلا کتنا ظلم ہے کہ ہم نہ کسی سے لڑنے کو آئے نہ کسی اور ارادے سے آئے صرف اللہ کے گھر کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہمیں روک رہے ہیں بتاؤ ان سے ہم کیوں نہ لڑیں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بیت اللہ کی زیارت کو نکلے ہیں آپ چلے چلئے ہمارا ارادہ جدال وقتال کا نہیں لیکن جو ہمیں اللہ کے گھر سے روکے گا ہم اس سے ضرور لڑیں گے خواہ کوئی ہو ، آپ نے فرمایا بس اب اللہ کا نام لو اور چل کھڑے ہو ۔ کچھ اور آگے چل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالد بن ولید طلائیہ کا لشکر لے کر آرہا ہے پس تم دائیں طرف کو ہو لو خالد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کے ان کے کلے پر پہنچ گئے اب خالد دوڑا ہوا قریشیوں میں پہنچا اور انہیں اس سے مطلع کیا اونٹنی کا نام اس روایت میں قصویٰ بیان ہوا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ جو کچھ وہ مجھ سے طلب کریں گے میں دوں گا بشرطیکہ حرمت اللہ کی اہانت نہ ہو پھر جو آپ نے اونٹنی کو للکارا تو وہ فوراً کھڑی ہو گئی بدیل بن ورقاء خزاعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر قریشیوں کو جب جواب پہنچاتا ہے تو عروہ بن مسعود ثقفی کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرا کر جو پہلے بیان ہو چکا یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھو اس شخص نے نہایت معقول اور واجبی بات کہی ہے اسے قبول کر لو اور جب یہ خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر آپ کا یہی جواب آپ کے منہ سے سنتا ہے تو آپ سے کہتا ہے کہ سنئے جناب دو ہی باتیں ہیں یا آپ غالب وہ مغلوب یا وہ غالب آپ مغلوب اگر پہلی بات ہی ہوئی تو بھی کیا ہوا آپ ہی کی قوم ہے آپ نے کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ جس نے اپنی قوم کا ستیاناس کیا ہو ؟ اور اگر دوسری بات ہو گی تو یہ جتنے آپ کے پاس ہیں میں تو دیکھتا ہوں کہ سارے ہی آپ کو چھوڑ چھاڑ دوڑ جائیں گے ، اس پر حضرت ابو بکر صدیق کا وہ جواب دیا جو پہلے گذر چکا ۔ حضرت مغیرہ والے بیان میں یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود تھا ان کے مارنے پر عروہ نے کہا غدار میں نے تو تیری غداری میں تیرا ساتھ دیا تھا بات یہ ہے کہ پہلے یہ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کے ایک گروہ کے ساتھ تھے موقعہ پا کر انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا مال لے کر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے آپ نے فرمایا تمہارا اسلام تو میں منظور کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں عروہ نے یہاں یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ آپ تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی لپک کر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوتے ہی فرمانبرداری کے لئے ایک سے ایک آگے بڑھتا ہے جب آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کے اعضاء بدن سے گرے ہوئے پانی پر جو قریب ہوتا ہے یوں لپکتا ہے جیسے صحابہ لڑپڑیں ، جب آپ بات کرتے ہیں تو بالکل سناٹا ہو جاتا ہے مجال نہیں جو کہیں سے چوں کی آواز بھی سنائی دے حد تعظیم یہ ہے کہ صحابہ آنکھ بھر کر آپ کے چہرہ منور کی طرف تکتے ہی نہیں بلکہ نیچی نگاہوں سے ہر وقت باادب رہتے ہیں اس نے پھر واپس آن کر یہی حال قریشیوں کو سنایا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو انصاف و عدل کی بات پیش کر رہے ہیں اسے مان لو بنو کنانہ کے جس شخص کو اس کے بعد قریش نے بھیجا اسے دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ قربانی کے جانوروں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اس لئے قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو اور اس کی طرف ہانک دو اس نے جو یہ منظر دیکھا ادھر صحابہ کی زبانی لبیک کی صدائیں سنیں تو کہہ اٹھا کہ ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا نہایت لغو حرکت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ مکرز کو دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ ایک تاجر شخص ہے ابھی یہ بیٹھا باتیں کر ہی رہا تھا جو سہیل آگیا اسے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا لو اب کام سہل ہو گیا اس نے جب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا واللہ میں رسول اللہ ہی ہوں گو تم نہ مانو ، یہ اس بنا پر کہ جب آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی تو آپ نے کہدیا تھا کہ یہ حرمات الہٰی کی عزت رکھتے ہوئے مجھ سے جو کہیں گے میں منظور کر لوں گا ، آپ نے صلح نامہ لکھواتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمیں یہ بیت اللہ کی زیارت کر لینے دیں گے لیکن سہیل نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ ہم دب گئے اور کچھ نہ کر سکے جب یہ شرط ہو رہی تھی کہ جو کافر ان میں سے مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے واپس کر دیں گے اس پر مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور ہم اسے کافروں کو سونپ دیں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابو جندل اپنی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آگئے ، سہیل نے کہا اسے واپس کیجئے آپ نے فرمایا ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا میں اسے کیسے واپس کر دوں ؟ اس نے کہا پھر تو اللہ کی قسم میں کسی طرح اور کسی شرط پر صلح کرنے میں رضامند نہیں ہوں آپ نے فرمایا تم خود مجھے خاص اس کی بابت اجازت دے دو اس نے کہا میں اس کی اجازت بھی آپ کو نہیں دوں گا آپ نے دوبارہ فرمایا لیکن اس نے پھر بھی انکار کر دیا مگر مکرز نے کہا ہاں ہم آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں اس وقت حضرت ابو جندل نے مسلمانوں سے فریاد کی ان بےچاروں کو مشرکین بڑی سخت سنگین سزائیں کر رہے تھے اس پر حضرت عمر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور وہ کہا جو پہلے گذر چکا پھر پوچھا کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں کہا کہ یہ اسی سال ہو گا حضرت عمر فرماتے ہیں میں پھر ابو بکر کے پاس آیا اور وہی کہا جس کا اوپر بیان گذرا ہے اس میں اتنا اور ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا ہاں ، پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اسی طرح ذکر کیا اور وہی جواب مجھے ملا جو ذکر ہوا ۔ جو جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور نائی کو بلوا کر سر منڈوا لیا پھر تو سب صحابہ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور قربانیوں سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کا سر خود مونڈنے لگے اور مارے غم کے اور اژدھام کے قریب تھا کہ آ پس میں لڑ پڑیں ۔ اس کے بعد ایمان والی عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں جن کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ۭ وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 10؀ ) 60- الممتحنة:10 ) ، نازل ہوئی اور حضرت عمر نے اس حکم کے ماتحت اپنی دو مشرکہ بیویوں کو اسی دن طلاق دے دی جن میں سے ایک نے معاویہ بن ابو سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے نکاح کر لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے واپس لوٹ کر مدینہ شریف آگئے ابو بصیر نامی ایک قریشی جو مسلمان تھے موقعہ پا کر مکہ سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ شریف پہنچے ان کے پیچھے ہی دو کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عہد نامہ کی بنا پر اس شخص کو آپ واپس کیجئے ہم قریشیوں کے بھیجے ہوئے قاصد ہیں اور ابو بصیر کو واپس لینے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اچھی بات ہے میں اسے واپس کر دیتا ہوں چنانچہ آپ نے حضرت ابو بصیر کو انہیں سونپ دیا یہ انہیں لے کر چلے جب ذوالحلیفہ پہنچے اور بےفکری سے وہاں کھجوریں کھانے لگے تو حضرت ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا واللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی تلوار نہایت عمدہ ہے ۔ اس نے کہا ہاں بیشک بہت ہی اچھے لوہے کی ہے میں نے بارہا اس کا تجربہ کر لیا ہے اس کی کاٹ کا کیا پوچھنا ہے ؟ یوں کہتے ہوئے اس نے تلوار میان سے نکال لی ، حضرت ابو بصیر نے ہاتھ بڑھا کر کہا ذرا مجھے دکھانا اس نے دے دی آپ نے ہاتھ میں لیتے ہی تول کر ایک ہی ہاتھ میں اس ایک کافر کا تو کام تمام کیا ، دوسرا اس رنگ کو دیکھتے ہی مٹھیاں بند کر کے ایسا سرپٹ بھاگا کہ سیدھا مدینہ پہنچ کر دم لیا اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بڑی گھبراہٹ میں ہے کوئی خوفناک منظر دیکھ چکا ہے ، اتنے میں یہ قریب پہنچ گیا اور دہائیاں دینے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور میں بھی اب تھوڑے دم کا مہمان ہوں دیکھئے وہ آیا اتنے میں حضرت ابو بصیر پہنچ گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ کو پورا کر دیا آپ نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے ان کے حوالے کر دیا ، اب یہ اللہ تعالیٰ کی کریمی ہے کہ اس نے مجھے ان سے رہائی دلوائی آپ نے فرمایا افسوس یہ کیسا شخص ہے؟ یہ تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے کاش کہ کوئی اسے سمجھا دیتا یہ سنتے ہی حضرت ابو بصیر چونک گئے کہ معلوم ہوتا ہے آپ شاید مجھے دوبارہ مشرکین کے حوالے کر دیں گے یہ سوچتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے مدینہ کو الوداع کہا اور لمبے قدموں سمندر کے کنارے کی طرف چل دئیے اور وہیں بودوباش اختیار کر لی یہ واقعہ مشہور ہو گیا ادھر سے ابو جندل بن سہیل جنہیں حدیبیہ میں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کیا تھا وہ بھی موقعہ پا کر مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور براہ راست حضرت ابو بصیر کے پاس چلے ، اب یہ ہوا کہ مشرکین قریش میں سے جو بھی ایمان قبول کرتا سیدھا حضرت ابو بصیر کے پاس آجاتا اور یہیں رہتا سہتا یہاں تک کہ ایک خاص معقول جماعت ایسے ہی لوگوں کی یہاں جمع ہو گئی اور انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ قریشیوں کا جو قافلہ شام کی طرف جانے کے لئے نکلتا یہ اس سے جنگ کرتے جس میں قریشی کفار قتل بھی ہوئے اور ان کے مال بھی ان مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ لگے یہاں تک کہ قریش تنگ آگئے بالاخر انہوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آدمی کو بھیجا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر رحم فرما کر ان لوگوں کو وہاں سے واپس بلوا لیجئے ہم ان سے دستبردار ہوتے ہیں ان میں سے جو بھی آپ کے پاس آجائے وہ امن میں ہے ہم آپ کو اپنی رشتہ داریاں یاد دلاتے ہیں اور اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں اپنے پاس بلوا لو چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ان حضرات کے پاس ایک آدمی بھیج کر سب کو بلوا لیا اور اللہ عزوجل نے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48- الفتح:24 ) ، نازل فرمائی ۔ ان کفار کی حمیت جاہلیت یہ تھی کہ انہوں نے آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) نہ لکھنے دی آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھنے دیا آپ کو بیت اللہ شریف کی زیارت نہ کرنے دی صحیح بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں ہے حبیب بن ابو ثابت کہتے ہیں میں ابو وائل کے پاس گیا تاکہ ان سے پوچھوں انہوں نے کہا ہم صفین میں تھے ایک شخص نے کہا کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں پس حضرت علی بن ابو طالب نے فرمایا ہاں پس سہیل بن حنیف نے کہا اپنی جانوں پر تہمت رکھو ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ والے دن دیکھا یعنی اس صلح کے موقعہ پر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اگر ہماری رائے لڑنے کی ہوتی تو ہم یقینا لڑتے ، حضرت عمر نے آکر کہا کہ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے مقتول جہنمی نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم کیوں اپنے دین میں جھک جائیں اور لوٹ جائیں ؟ حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں ان میں کوئی فیصلہ کن کاروائی نہیں کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں وہ مجھے کبھی بھی ضائع نہ کرے گا یہ جواب سن کر حضرت عمر لوٹ آئے لیکن بہت غصے میں تھے وہاں سے حضرت صدیق کے پاس آئے اور یہی سوال و جواب یہاں بھی ہوئے اور سورہ فتح نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت سہیل بن حنیف کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ابو جندل والے دن دیکھا کہ اگر مجھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو لوٹانے کی قدرت ہوتی تو میں یقینا لوٹا دیتا ، اس میں یہ بھی ہے کہ جب سورہ فتح اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو بلا کر یہ سورت انہیں سنائی مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس وقت یہ شرط طے ہوئی کہ ان کا آدمی انہیں واپس کیا جائے اور ہمارا آدمی وہ واپس نہ کریں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کیا ہم یہ بھی مان لیں ؟ اور لکھ دیں آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ ہم میں سے جو ان میں جائے اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ( مسلم ) مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جب خارجی نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کی تو میں نے ان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن جب مشرکین سے صلح کی تو مشرکین نے کہا اگر ہم آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے تو آپ سے ہرگز نہ لڑتے تو آپ نے فرمایا علی اسے مٹا دو ۔ اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں علی اسے کاٹ دو اور لکھو یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح کی محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اللہ کی قسم رسول اللہ حضرت علی بہت بہتر تھے پھر بھی آپ نے اس لکھے ہوئے کو کٹوایا اس سے کچھ آپ نبوت سے نہیں نکل گئے مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والے دن ستر اونٹ قربان کئے جن میں ایک اونٹ ابو جہل کا بھی تھا جب یہ اونٹ بیت اللہ سے روک دئیے گئے تو اس طرح نالہ و بکا کرتے تھے جیسے کسی سے اس کا دودھ پیتا بچہ الگ ہو گیا ہو ۔