Surah

Information

Surah # 48 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 111 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed while returning from Hudaybiyya
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ ‌ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ ۛۚ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿29﴾
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔
محمد رسول الله و الذين معه اشداء على الكفار رحماء بينهم ترىهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله و رضوانا سيماهم في وجوههم من اثر السجود ذلك مثلهم في التورىة و مثلهم في الانجيل كزرع اخرج شطه فازره فاستغلظ فاستوى على سوقه يعجب الزراع ليغيظ بهم الكفار وعد الله الذين امنوا و عملوا الصلحت منهم مغفرة و اجرا عظيما
Muhammad is the Messenger of Allah ; and those with him are forceful against the disbelievers, merciful among themselves. You see them bowing and prostrating [in prayer], seeking bounty from Allah and [His] pleasure. Their mark is on their faces from the trace of prostration. That is their description in the Torah. And their description in the Gospel is as a plant which produces its offshoots and strengthens them so they grow firm and stand upon their stalks, delighting the sowers - so that Allah may enrage by them the disbelievers. Allah has promised those who believe and do righteous deeds among them forgiveness and a great reward.
Muhammad ( PBUH ) Allah kay rasool hain aur jo log unn kay sath hain kafiron per sakht hain aapas mein reham dil hain tu enhen dekhay ga kay rukoo aur sajday ker rahey hain Allah Taalaa kay fazal aur raza mandi ki justujoo mein hain inn ka nishan inn kay chehron per sajdon kay asar say hai inn ki yeh hi misal toraat mein hai aur inn ki misal injeel mein hai misil uss kheti kay jiss ney apna ankhwa nikala phir ussay mazboot kiya aur woh mota hogaya phir apnay tanay per seedha khara hogaya aur kisano ko khush kernay laga takay inn ki waja say kafiron ko chiraye inn eman walon aur nek aemaal walon say Allah ney bakhsish ka aur boht baray sawab ka wada kiya hai.
محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ ( ٣١ ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ( اور ) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں ، ( غرض ) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں ۔ ( ٣٢ ) اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی ، پھر اس کو مضبوط کیا ، پھر وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں ۔ ( ٣٣ ) تاکہ اللہ ان ( کی اس ترقی ) سے کافروں کا دل جلائے ۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کرلیا ہے ۔
محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور ان کے ساتھ والے ( ف۸۰ ) کافروں پر سخت ہیں ( ف۸۱ ) اور آپس میں نرم دل ( ف۸۲ ) تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے ( ف۸۳ ) اللہ کا فضل و رضا چاہتے ، ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے ( ف۸٤ ) یہ ان کی صفت توریت میں ہے ، اور ان کی صفت انجیل میں ( ف۸۵ ) جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے ( ف۸٦ ) تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں ، اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں ( ف۸۷ ) بخشش اور بڑے ثواب کا ،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت 52 اور آپس میں رحیم ہیں 53 ۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے ۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں 54 ۔ یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں 55 ۔ اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی 56 ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اس کو تقویت دی ، پھر وہ گدرائی ، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی ۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا57ہے ۔
محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں ( وہ ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں ۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے ، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ ( صرف ) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں ۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے ( جو بصورتِ نور نمایاں ہے ) ۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں ( بھی مذکور ) ہیں اور ان کے ( یہی ) اوصاف انجیل میں ( بھی مرقوم ) ہیں ۔ وہ ( صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی ) کھیتی کی طرح ہیں جس نے ( سب سے پہلے ) اپنی باریک سی کونپل نکالی ، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا ، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ( اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو ) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی ( اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے ) تاکہ اِن کے ذریعے وہ ( محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے ) کافروں کے دل جلائے ، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے
سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :52 اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار ، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ ، فلاں شخص اس پر شدید ہے ، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے ۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی ، اصول کی مضبوطی ، سیرت کی طاقت ، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں ۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں ۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔ انہیں کسی خوف سے دبایا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا ۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :53 یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے ، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے ۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں ، رحیم و شفیق ہیں ، ہمدرد و غمگسار ہیں ۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :54 اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد خدا ترسی ، کریم النفسی ، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃ آدمی کے چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے ۔ ایک لفنگے اور بدکار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں ، کیونکہ خدا پرستی کا نور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :55 غالبا یہ اشارہ کتاب استثناء ، باب 33 ، آیات 2 ۔ 3 کی طرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے صحابہ کے لیے قدسیوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجودہ محرف توراۃ میں نہیں ملتی ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :56 یہ تمثیل حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسے بائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے ۔ اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے ۔ زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے ۔ پتی ، پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے ، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے ۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کر سکتےہیں ۔ ( مرقس ، بابا4 ، آیات 26 تا 32 ۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب13 ، آیات 31 ۔ 32 میں بھی ہے ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :57 ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ان میں سےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ کرام پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ کرام میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4 ۔ 5 ۔ 18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے ، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4 ۔ 5 ۔ میں اللہ تعالی نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالی نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے ۔ آیت 26 میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے ، ان کے اوپر اپنی سکنیت نازل کرنے کی خبر دی ہے ، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقوی کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں ۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے ۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھی ہیں وہ ایسے اور ایسے ہیں ۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے ۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے ۔ درحقیقت یہاں مِنْ بیان کے لیے ہے جس طرح آیت فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ ( بتوں کی گندگی سےبچو ) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازما بیان ہی کے لیے ہے ، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ بتوں میں سےجو ناپاک ہیں ان سے پرہیز کرو ، اور اس سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہوگا ۔
تصدیق رسالت بزبان الہ ان آیتوں میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اذلتہ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین ) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم ، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنیوالا اور کفر سے ناخوش رہے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٢٣؁ ) 9- التوبہ:123 ) ایمان والو اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو وہ تم میں سختی محسوس کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بیقرار ہو جاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں ۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے جیسے فرمایا آیت ( وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 72؀ۧ ) 9- التوبہ:72 ) اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے ، حضرت منصور حضرت مجاہد سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑ جاتا ہے آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں حضرت سدی فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کر دیتی ہے بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہو گا ۔ حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے روزی میں کشادگی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اسکی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کر دیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے پس مومن جب اپنے دل کو درست کر لیتا ہے اپنا باطن سنوار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے ، طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی ۔ لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے ۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ ، اچھا خلق ، میانہ روی نبوۃ کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے ۔ الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا حضرت امام مالک کا فرمان ہے کہ جن صحابہ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے اللہ کی قسم یہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں ۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے ۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہو جاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے؟ اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لئے کہ کفار جھینپیں ۔ حضرت امام مالک نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ ( منھم ) میں جو ( من ) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پالئے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے صحابہ کو برا نہ کہو ان کی بے ادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پاسکتا ۔ الحمد اللہ سورہ فتح کی تفسیر ختم ہوئی ۔