Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَيۡنَ يَدَىِ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿1﴾
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو ۔ یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا ، جاننے والا ہے ۔
يايها الذين امنوا لا تقدموا بين يدي الله و رسوله و اتقوا الله ان الله سميع عليم
O you who have believed, do not put [yourselves] before Allah and His Messenger but fear Allah . Indeed, Allah is Hearing and Knowing.
Aey eman walay logo! Allah aur uss kay rasool say aagay na barho aur Allah say dartay raha kero. Yaqeenan Allah Taalaa sunnay wala, jannay wala hai.
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھا کرو ۔ ( ١ ) اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اللہ یقینا سب کچھ سنتا ، سب کچھ جانتا ہے ۔
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو ( ف۲ ) اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو1 اور اللہ سے ڈرو ، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے 2 ۔
اے ایمان والو! ( کسی بھی معاملے میں ) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو ( کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے ) ، بیشک اﷲ ( سب کچھ ) سننے والا خوب جاننے والا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :1 یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے ۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو ، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو ، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو ، پیچھے چلو ۔ مقدم نہ بنو ، تابع بن کر رہو ۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے ۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا ۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں ۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے ، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کتاب اللہ کے مطابق ۔ آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟ انہوں نے کہا سنت رسول اللہ کی طرف آپ نے فرمایا اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟ انہوں نے عرض کیا پھر میں خود اجتہاد کروں گا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے ۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا کہ ِافرادِ امّت کا قیاس و اجتہاد ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :2 یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے ۔
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیے تمام کاموں میں اللہ اور رسول کے پیچھے رہنا چاہیے ، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیے حضرت معاذ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے جواب دیا اللہ کی کتاب کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا سنت کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو ( ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ ) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت معاذ نے اپنی رائے نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو ۔ حضرت عوفی فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کر دیا گیا مجاہد فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو حضرت ضحاک فرماتے ہیں امر دین احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو ، حضرت سفیان ثوری کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہل نہ کرو امام حسن بصری فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجاآوری میں اللہ کا لحاظ رکھو اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کریں ۔ یہ آیت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہو جائیں یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ان دونوں کی آوازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہوگئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس کو کہتے تھے جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے ۔ اس پر حضرت صدیق نے فرمایا کہ تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو فاروق اعظم نے جواب دیا نہیں نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن زبیر فرماتے ہیں اس کے بعد تو حضرت عمر اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر فرماتے تھے قعقاع بن معبد کو اس وفد کا امیر بنائیے اور حضرت عمر فرماتے تھے نہیں بلکہ حضرت اقرع بن حابس کو اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہوگئیں جس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ Ǻ۝ ) 49- الحجرات:1 ) نازل ہوئی اور آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 49- الحجرات:5 ) ، مسند بزار میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝ ) 49- الحجرات:2 ) ، کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کئی دن تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے اس پر ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا چنانچہ وہ حضرت ثابت کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ پوچھا کیا حال ہے ۔ جواب ملا برا حال ہے میں تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہوگئے اور میں جہنمی بن گیا ۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ سنایا پھر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت کے ہاں گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے اس میں یہ بھی ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ ثابت کہاں ہیں نظر نہیں آتے ۔ اس کے آخر میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بد دل ہوگئے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت ثابت خوشبو ملے ، کفن پہنے ہوئے دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لئے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے جب انہیں نہیں دیکھا تو حضرت سعد سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں ؟ لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں حضرت سعد کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لئے کہ حضرت سعد بن معاذ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہو گیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ ٥ ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے درپے آنے کا واقعہ سنہ ٩ ہجری کا ہے واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت ثابت بن قیس راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے حضرت عاصم بن عدی جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے حضرت عاصم یہ سن کر چلے گئے اور حضرت ثابت کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ حضرت جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جارہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مر جاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رضامند کر دے ۔ یہاں تو یہ ہوا وہاں جب حضرت عاصم نے دربار رسالت میں حضرت ثابت کی حالت بیان کی تو رسالت مآب نے حکم دیا کہ تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ لیکن عاصم اس جگہ آئے تو دیکھا کہ حضرت ثابت وہاں نہیں مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آکر کہا ثابت چلو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں ۔ حضرت ثابت نے کہا بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ نے رونے کی وجہ پوچھی جس کا سچا جواب حضرت ثابت سے سن کر آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ ۔ اس پر حضرت ثابت کا سارا رنج کافور ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا ۔ اس پر اس کے بعد کی آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ Ǽ۝ ) 49- الحجرات:3 ) الخ ، نازل ہوئی ، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے ۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آکر ان سے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا طائف کے آپ نے فرمایا اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا ۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ کی حیات میں آپ کے سامنے مکروہ تھا اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں ۔ پھر آپ کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں ، بلکہ آپ سے تسکین و وقار ، عزت و ادب ، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ ) 24- النور:63 ) اے مسلمانو! رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لئے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کر لے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے ۔ کہ اس کے نزد یک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے ۔ کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہو جاتا ہے اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لئے خالص کر لیا ہے اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں امام احمد نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیرالمومنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے آزما لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔