Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ وَلَا تَجۡهَرُوۡا لَهٗ بِالۡقَوۡلِ كَجَهۡرِ بَعۡضِكُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿2﴾
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ( ایسا نہ ہو ) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبربھی نہ ہو ۔
يايها الذين امنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي و لا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم و انتم لا تشعرون
O you who have believed, do not raise your voices above the voice of the Prophet or be loud to him in speech like the loudness of some of you to others, lest your deeds become worthless while you perceive not.
Aey eman walo! Apni aawazen nabi ki awaz say uper na kero aur na unn say unchi aawaz say baat kero jesay aapas mein aik doosray say kertay ho, kahin ( aisa na ho kay ) tumharay aemaal ikaarat jayen aur tumhen khabar bhi na ho.
اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو ، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں ، اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔
اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے ( نبی ) کی آواز سے ( ف۳ ) اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ( ف٤ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو3 ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو4 ۔
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات ( بھی ) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو ( ایسا نہ ہو ) کہ تمہارے سارے اعمال ہی ( ایمان سمیت ) غارت ہو جائیں اور تمہیں ( ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا ) شعور تک بھی نہ ہو
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :3 یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا ۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں ۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو ۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں ۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے ۔ یہ ادب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے ، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو ، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے ، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں ۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے ، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :4 اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عظمت کا کیا مقام ہے ۔ رسول پاک ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سوا کوئی شخص ، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو ، بہرحال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے ، خلاف تہذیب حرکت ہے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے ۔ اس لیے آپ کا احترام دراصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں ۔