Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَهُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡهُمۡ فَقَالَ الۡكٰفِرُوۡنَ هٰذَا شَىۡءٌ عَجِيۡبٌ‌ۚ‏ ﴿2﴾
بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے
بل عجبوا ان جاءهم منذر منهم فقال الكفرون هذا شيء عجيب
But they wonder that there has come to them a warner from among themselves, and the disbelievers say, "This is an amazing thing.
bulkay enhen tajjub maloom hua kay inn kay pass inhi mein say aik aagah kerney wala aaya to kafiron ney kaha kay yeh aik ajeeb cheez hai.
بلکہ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کوئی ( آخرت سے ) ڈرانے والا خود انہی میں سے ( کیسے ) آگیا ، چنانچہ ان کافروں نے یہ کہا ہے کہ : یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔
بلکہ انھیں اس کا اچنبھا ہوا کہ ان کے پاس انہی میں کا ایک ڈر سنانے والا تشریف لایا ( ف۳ ) تو کافر بولے یہ تو عجیب بات ہے ،
بلکہ ان لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے ان کے پاس آگیا2 ۔ پھر منکرین کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہے ،
بلکہ اُن لوگوں نے تعجب کیا کہ اُن کے پاس اُنہی میں سے ایک ڈر سنانے والا آگیا ہے ، سو کافر کہتے ہیں: یہ عجیب بات ہے
سورة قٓ حاشیہ نمبر :2 یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا ۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات بلکہ سے شروع کر دی گئی ہے ۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قَسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے ۔ اس میں دراصل قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے کسی معقول بنیاد پر انکار نہیں کیا ہے ، بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی جنس کے ایک بشر ، اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا اپنے بندوں کی بھلائی اور برائی سے بے پروا ہو کر انہیں خبردار کرنے کا کوئی انتظام نہ کرتا ، یا انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے کسی غیر انسان کو بھیجتا ، یا عربوں کو خبردار کرنے کے لیے کسی چینی کو بھیج دیتا ۔ اس لیے انکار کی یہ بنیاد تو قطعی نامعقول ہے اور ایک صاحب عقل سلیم یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسی شکل میں ہونا چاہیے یہ خبردار کرنے والا خود انہی لوگوں میں سے کوئی شخص ہو جن کے درمیان وہ بھیجا گیا ہو ۔ اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا محمد صلی اللہ عدلیہ وسلم ہی وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے اس کام کے لیے بھیجا ہے ، تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی اور شہادت کی حاجت نہیں ، یہ عظیم و کریم قرآن ، جسے وہ پیش کر رہے ہیں ، اس بات کا ثبوت دینے کے لیے بالکل کافی ہے ۔ اس تشریح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بے جا ہے ۔ اور قرآن کے مجید ہونے کو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے ۔