Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
اَ فَلَمۡ يَنۡظُرُوۡۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوۡقَهُمۡ كَيۡفَ بَنَيۡنٰهَا وَزَ يَّـنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنۡ فُرُوۡجٍ‏ ﴿6﴾
کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اس میں کوئی شگاف نہیں ۔
افلم ينظروا الى السماء فوقهم كيف بنينها و زينها و ما لها من فروج
Have they not looked at the heaven above them - how We structured it and adorned it and [how] it has no rifts?
Kiya inhon nay aasman ko apnay uper nahi dekha? Kay hum ney ussay kiss tarah banaya aur zeenat di hai iss mein koi shigaf nahi.
بھلا کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے ؟ اور ہم نے اسے خوبصورتی بخشی ہے ، اور اس میں کسی قسم کے رخنے نہیں ہیں ۔
تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا ( ف۹ ) ہم نے اسے کیسے بنایا ( ف۱۰ ) اور سنوارا ( ف۱۱ ) اور اس میں کہیں رخنہ نہیں ( ف۱۲ )
اچھا6 ، تو کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا 7 ، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے 8 ۔
سو کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور ( کیسے ) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف ( تک ) نہیں ہے
سورة قٓ حاشیہ نمبر :6 اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نامعقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں ۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں ۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے ۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا رہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے ، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی ۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :7 یہاں آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے ۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں ۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے ، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنار ہے ، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی ۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں ۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں ۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں ( Galaxy ) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے ۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے ( ثوابت ) موجود ہیں ، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے ۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے ۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے ۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے ، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے ۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے ۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق ، جس کا نام انسان ہے ، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا ، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے ۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی! سورة قٓ حاشیہ نمبر :8 یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا ۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295 ( Source 3c,285 ) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی ۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا ۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری ( Light Years ) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا ، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے ، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں ، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے ۔
اللہ کے محیر العقول شاہکار یہ لوگ جس چیز کو ناممکن خیال کرتے تھے پروردگار عالم اس سے بھی بہت زیادہ بڑھے چڑھے ہوئے اپنی قدرت کے نمونے پیش کر رہا ہے کہ آسمان کو دیکھو اس کی بناوٹ پر غور کرو اس کے روشن ستاروں کو دیکھو اور دیکھو کہ اتنے بڑے آسمان میں ایک سوراخ ، ایک چھید ، ایک شگاف ، ایک دراڑ نہیں چنانچہ سورہ تبارک میں فرمایا آیت ( الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ Ǽ۝ ) 67- الملك:3 ) ، اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے تو اللہ کی اس صفت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا تو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ پھر بار بار غور کر اور دیکھ تیری نگاہ نامراد اور عاجز ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی ۔ پھر فرمایا زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور بچھا دیا اور اس میں پہاڑ جما دئیے تا کہ ہل نہ سکے کیونکہ وہ ہر طرف سے پانی سے گھری ہوئی ہے اور اس میں ہر قسم کی کھیتیاں پھل سبزے اور قسم قسم کی چیزیں اگا دیں جیسے اور جگہ ہے ہر چیز کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ۔ ( بھیج ) کے معنی خوشنما ، خوش منظر ، بارونق ۔ پھر فرمایا آسمان و زمین اور ان کے علاوہ قدرت کے اور نشانات دانائی اور بینائی کا ذریعہ ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ کی طرف رغبت کرنے والا ہو پھر فرماتا ہے ہم نے نفع دینے والا پانی آسمان سے برسا کر اس سے باغات بنائے اور وہ کھیتیاں بنائیں جو کاٹی جاتی ہیں اور جن کے اناج کھلیان میں ڈالے جاتے ہیں اور اونچے اونچے کھجور کے درخت اگا دئیے جو بھرپور میوے لادتے اور لدے رہتے ہیں یہ مخلوق کی روزیاں ہیں اور اسی پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا وہ لہلہانے لگی اور خشکی کے بعد تروتازہ ہو گئی ۔ اور چٹیل سوکھے میدان سر سبز ہو گئے یہ مثال ہے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی اور ہلاکت کے بعد آباد ہونے کی یہ نشانیاں جنہیں تم روزمرہ دیکھ رہے ہو کیا تمہاری رہبری اس امر کی طرف نہیں کرتیں ؟ کہ اللہ مردوں کے جلانے پر قادر ہے چنانچہ اور آیت میں ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی ہے اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33؀ ) 46- الأحقاف:33 ) یعنی کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو جلا دے ؟ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀ ) 41- فصلت:39 ) ، یعنی تو دیکھتا ہے کہ زمین بالکل خشک اور بنجر ہوتی ہے ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جس سے وہ لہلہانے اور پیداوار اگانے لگتی ہے کیا یہ میری قدرت کی نشانی نہیں بتاتی ؟ کہ جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کے جلانے پر بلاشک و شبہ قادر ہے یقینًا وہ تمام تر چیزوں پر قدرت رکھتی ہے ۔