سورة قٓ حاشیہ نمبر :40
اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کر لیا ہو ، جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے ، اور ہر اس چیز کو اختیار کر لے جو اللہ کو پسند ہے ، جو راہ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اٹھے اور توبہ کر کے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے ، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اس کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :41
اصل میں لفظ حفیظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حفاظت کرنے والا ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اسے کے فرائض اور اس کی حرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے ، جو ان حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں ، جو اس عہد و پیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لا کر اس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو ، جو توبہ کر کے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے ، جو ہر وقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں ۔