Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
مَنۡ خَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِ وَجَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِيۡبِۙ‏ ﴿33﴾
جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو ۔
من خشي الرحمن بالغيب و جاء بقلب منيب
Who feared the Most Merciful unseen and came with a heart returning [in repentance].
Jo rehman ka ghaeebana khof rakhta ho aur tawajja wala dil laya ho.
جو خدائے رحمن سے اسے دیکھے بغیر ڈرتا ہو ، اور اللہ کی طرف رجوع ہونے والا دل لے کر آئے ۔
جو رحمن سے بےدیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرتا ہوا دل لایا ( ف۵۵ )
جو بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتا تھا42 ، اور جو دل گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے 43 ۔
جو ( خدائے ) رحمان سے بِن دیکھے ڈرتا رہا اور ( اﷲ کی بارگاہ میں ) رجوع و اِنابت والا دل لے کر حاضر ہوا
سورة قٓ حاشیہ نمبر :42 یعنی باوجود اس کے کہ رحمان اس کو کہیں نظر نہ آتا تھا ، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کر سکتا تھا ، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا ۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب تھا ۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمٰن ہے ، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا ۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا ۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے ۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خَشِیَّت ، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے ۔ خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقالہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو ۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو ۔ یہاں خوف کے بجائے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا ، بلکہ اس سے بھی پڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :43 اصل الفاظ ہیں قلبِ مُنِیب لے کر آیا ہے ۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں ۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جلائیں ، وہ ہِر پھر کر قطب ہی کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا ۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جائے ۔