Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
وَمِنَ الَّيۡلِ فَسَبِّحۡهُ وَاَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ‏ ﴿40﴾
اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی ۔
و من اليل فسبحه و ادبار السجود
And [in part] of the night exalt Him and after prostration.
Aur raat kay kissi waqt bhi tasbeeh keren aur namaz kay baad bhi.
اور رات کے حصوں میں بھی اس کی تسبیح کرو ۔ ( ١٦ ) اور سجدوں کے بعد بھی ۔ ( ١٧ )
اور کچھ رات گئے اس کی تسبیح کرو ( ف٦۷ ) اور نمازوں کے بعد ( ف٦۸ )
اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی51 ۔
اور رات کے بعض اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد بھی
سورة قٓ حاشیہ نمبر :51 یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے ، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آئے ، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے اور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے ۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ طلوع آفتاب سے پہلے ۔ فجر کی نماز ہے غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں ، ایک ظہر ، دوسری عصر ۔ رات کے وقت ۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حواشی 91 تا 97 ۔ جلد سوم ، طہٰ ، حاشیہ 111 ۔ الروم ، حواشی 23 ۔ 24 ) ۔ رہی وہ تسبیح جو سجدے سے فارغ ہونے کے بعد کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت حسن بن علی ، حضرات ابوہریرہ ، ابن عباس ، شُیبی ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن بصری ، قتادہ ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے ۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں ۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا ؟ ۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں ، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے ، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33 ۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ ، الحمد لِلہ ، اللہ اکبر کہا کرو ۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء ۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33 ۔ 33 کے بجائے دس دس بھی منقول ہوئی ہے ۔ حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد 33 ۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں ۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم 25 ۔ 25 مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو ۔ ( احمد ۔ نسائی ۔ دارمی ) ۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ o وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہیں ۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے ، چھانٹ کر یاد کرلیں اور اس کا التزام کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے ۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معانی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے ۔