Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَ‌ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡهِمۡ بِجَـبَّارٍ‌ فَذَكِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ يَّخَافُ وَعِيۡدِ‏ ﴿45﴾
یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید ( ڈراوے کے وعدوں ) سے ڈرتے ہیں ۔
نحن اعلم بما يقولون و ما انت عليهم بجبار فذكر بالقران من يخاف وعيد
We are most knowing of what they say, and you are not over them a tyrant. But remind by the Qur'an whoever fears My threat.
Yeh jo kuch keh rahey hain hum bakhoobi jaantay hain aur aap inn per jabar kerney walay nahi to aap quran kay zariyey enhen samjhatay rahen jo meray waeed ( daraway kay wadon ) say dartay hain.
جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور ( اے پیغمبر ) تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو ۔ ( ٢٠ ) لہذا قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو نصیحت کرتے رہو جو میری وعید سے ڈرتا ہو ۔
ہم خوب جان رہے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں ( ف۷٤ ) اور کچھ تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ( ف۷۵ ) تو قرآن سے نصیحت کرو اسے جو میری دھمکی سے ڈرے ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں 55 ، اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے ۔ بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے ۔ 56 ۔
ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں اور آپ اُن پر جبر کرنے والے نہیں ہیں ، پس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمائیے جو میرے وعدۂ عذاب سے ڈرتا ہے
سورة قٓ حاشیہ نمبر :55 اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو ، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان سے نمٹنا ہمارا کام ہے ۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے ۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :56 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا ۔ بلکہ در اصل یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے ۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے ۔ اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوائے ۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جائے اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے ۔