سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :3
اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں ۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے ، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے ۔