اب تو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کی بھی ایسی ہی باری آئے گی جیسے ان کے ( پچھلے ) ساتھیوں کی باری آئی تھی ، اس لیے وہ مجھ سے جلدی ( عذاب لانے ) کا مطالبہ نہ کریں ۔
پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے 56 ان کے حصہ کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے ۔ جیسا انہی جیسے لوگوں کو ان کے حصے کا مل چکا ہے ، اس کے لیے یہ لوگ جلدی نہ مچائیں57 ۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :56
ظلم سے مراد یہاں حقیقت اور صداقت پر ظلم کرنا ، اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے ۔ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ یہاں ظلم کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو خداوند عالم کے سوا دوسروں کی بندگی کر رہے ہیں ، جو آخرت کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو دنیا میں غیر ذمہ دار سمجھ رہے ہیں ، اور ان انبیاء کو جھٹلا رہے ہیں جنہوں نے ان کو حقیقت سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے ۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :57
یہ جواب ہے کفار کے اس مطالبہ کا کہ وہ یوم الجزا کہاں آتے آتے رہ گیا ہے ، آخر وہ آ کیوں نہیں جاتا ۔